سنن و آداب روز جمعہ
ممتازعالم نسىم أحمد نورى(دعوة وجاليات صبىح)
اللہ تعالی جسے چاہتا ہے اسے دوسروں پر فضیلت دیتا ہے، اور اسکے جنس کے ہی دیگر چیزوں پر اسے برتری عطا کرکے اسے ان میں ممتاز کردیتا ہے،اللہ تعالی نے فرشتوں میں سے پیامبر فرشتوں کو چن لیا ، کلام میں سے قرآن مجید کو چن لیا اور پوری سرزمین میں سے مساجد کو چن لیا ، شہروں میں مکہ و مدینہ کو چن لیا, مہینوں میں سے چار قابل احترام مہینوں کو چن لیا، راتوں میں شب قدر کو چن لیا، اسی طرح ہفتےكے سات دنوں میں جمعہ کا دن سب سے افضل قرار پاىا ,امت محمدیہ کی اس طرف رہنمائی اور انہیں اسکی برکات سے نوازنا اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے,بايں طور كہ پہلی امتوں کو اس سے محروم رکھا گیا ,مگر اس امت کو اللہ نے اِس کے برکات سے نواز کر ان پر خصوصی کرم فرمائی,آئیے اس مختصر مضمون میں ہم اس عظیم دن کی چند خصوصیات، اس کے بعض سنن و آداب اور اس سے متعلق اہم مسائل کی جانکاری حاصل کریں:
محترم قارئین:یقینا روز جمعہ بہت ہی عظیم دن ہے،یہ ہفتے کے دنوں کا سردار ہے ,صحیح احادیث میں اس کے کئی فضائل بیان کئے گئے ہیں؛اسی دن اللہ تعالى نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا ,اسی دن انہیں جنت میں داخل کیا, اسی دن جنت سے باہر کئے گئے (مسلم)،اسی دن ان کی توبہ بھی قبول کی گئ اور اسى دن ان كا انتقال ہوا,اسی دن صور میں پھونکا جائے گا,زور دار چیخ کی آواز بھی اسی دن آئے گی،قیامت بھی اسی دن قائم ہوگی,اس دن انسانوں اور جناتوں کے علاوہ ساری مخلوقات(فرشتے،آسمان،زمین،ہوا،پہاڑ،دریا) صبح سے لے کر طلوع آفتاب تک قیامت کے خوف سے اس کے منتظر ہوتے ہیں,اس دن میں ایک ایسی گھڑی بھی ہے جس میں کی گئی دعاء کبھی رد نہیں کی جاتی(أبو داؤد,صححه الألباني),ايك حديث کے مطابق یہ دن عید فطر اور عید اضحی سے بھی افضل ہے(ابن ماجه,صححه الألباني).
اسى طرح صحىح أحادىث سے معلوم ہوتا ہے كہ اس دن غسل کرنے،خوشبو لگانے اور مسواک کرنے کا خصوصی اہتمام کرنا مسنون ہے(ابن ماجه,صححه الألباني),اسی طرح مسجد جانے میں جلدی کرنا،پیدل چلتے ہوئے مسجد جانا،جہاں جگہ ملے بلا گردن پھلانگےہوئے وہیں پر بیٹھ جانا اور خاموشی سے خطبہ سننا بھی مشروع اور باعث اجر و ثواب عمل ہے,نماز جمعہ کی تیاری کے بعد مسجد کیلئے پیدل چلنے پر ہر قدم کے بدلے ایک سال کے صیام و قیام کا اجر ملتا ہے(أبوداؤد,ابن ماجه,صححه الألباني).جمعہ کے دن سورہ کہف پڑھنا پورے ہفتے نور کا باعث ہے(الحاكم والبيهقي, وصححه الألباني).جمعہ کے دن دوران خطبہ(مسلم:853) یا غروب شمس سے قبل(أبوداؤد:1048,وصححه الألباني) دعا کر نا باعث قبولیت ہے،جمعہ کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کثرت سے درود بھیجنا بهى مسنون ہے(أبوداؤد:1047،وصححه الألباني).آپ نے اس دن خصوصی طور پر اس کے اہتمام کا حکم دیتے ہوئے فرمايا ہے كہ بروز قیامت آپ کی شفاعت اور قرب کثرت درود کے باعث ہی ممکن ہوگی(بيهقى :6089),اسى طرح ایک درود کے بدلے دس رحمتیں(مسلم:409) یا ایک درود کے بدلے دس رحمتوں کے نزول کے ساتھ، دس گناہ مٹائے جاتے ہیں ,دس درجے بلند ہونے كى بشارت بهى وارد ہے(أحمد:11587,نسائى :1297وصححه الألباني) .
یوم جمعہ کی خصوصیات اور اس کے سنن اور مستحبات کی جانکاری کے بعد ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ جمعہ کی نماز کیلئے جلدی مسجد کا رخ کرنا چاہیے، جمعہ کی اذان کے بعد خرید وفروخت سے منع کیا گیا ہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کیلئے جلدی آنے کی بڑی فضیلت ذکر فرمائی ہےکہیں جلدی مسجد پہونچنے پر اونٹ ،گائے،مینڈھا،مرغی یا انڈے کی قربانی کے برابر اجر و ثواب کی خوشخبری سنائی ہے،کسی میں جلدی مسجد پہونچ کر امام سے قریب ہونے کو بروز قیامت اللہ سے قرب کا باعث بتایا,تو کہیں یہ بتاتے ہوئے مسجد پہونچنے میں جلدی کرنے پر ابھارا ہے کہ بروز جمعہ مسجد کے دروازوں پر فرشتے مقرر ہوتے ہیں اور امام کے منبر پر بیٹھنے تک آنے والوں کا نام لکھتے رہتے ہیں بعد ازیں رجسٹر بند کرکے خطبہ سننے میں مصروف ہوجاتے ہیں,لہذا ہمیں مسجد پہونچنے میں جلدی کرنی چاہئے تاکہ فرشتوں کے رجسٹر میں اپنا نام درج کروا کر ،قربانی کا اجر و ثواب حاصل کرتے ہوئے ،بروز قیامت قرب الہی کے مستحق بن سکیں .
مسجد پہونچنے کے بعد ہم بیٹھنے سے قبل دو رکعت تحیہ المسجد کی ادائیگی ہرگز نہ بھولیں ,اگر امام نے خطبہ شروع کردیا ہو تو بھی دو ہلکی رکعتیں ادا کئے بغیر نہ بیٹھیں،یاد رہے کہ مسجد میں موجودگی کے وقت بالکل خاموشی اختیار کرنا اور فضول کاموں سے پرہیز کرنا از حد ضروری ہے،یہاں تک کہ اگر کوئی بات چیت کررہا ہو تو اسے خاموشی کا حکم کرنا بھی بیہودگی شمار ہوگی،اور نماز جمعہ کا ثواب جاتا رہیگا.
اس دن سب سے افضل عبادت نماز جمعہ ہے,نماز جمعہ کی ادائیگی دو جمعوں کے درمیان گناہوں کا کفارہ ہے،نماز جمعہ كا ہر مکلف اور صاحب استطاعت شخص پر باجماعت ادا کرنا فرض عین ہے,جمعہ کی نماز سے صرف غلام،بچے،عورت ،بیمار اور مسافر کو رخصت دی گئی ہے,اسے انفرادی طور پر ادا کرنا درست نہیں,جس شخص کی نماز جمعہ فوت ہوجائے وہ ظہر کی چار رکعت ادا کرے گا,نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد اگر آپ مسجد میں سنت ادا کرنا چاہیں تو 2+2چار رکعتین ادا کریں ،اور گھر میں صرف دو رکعتیں ہاں دو رکعت مسجد میں اور دو گھر پر بھی پڑھے جاسکتے ہیں.
بلاعذر نماز جمعہ چھوڑنے والے پر سخت وعید وارد ہے، رحمہ للعالمين صلی اللہ علیہ وسلم سے مختلف وعیدوں کے ساتھ ساتھ ایسے لوگوں پر ان کے گھروں کو جلادینے کا ارادہ بھی صحیح حدیث میں ثابت ہے.
فوائد:
□ سب سے افضل نماز جمعہ كےدن نماز فجر كو باجماعت ادادلا كرنا ہے [بيهقي ,صححه الألباني(صحيح الجامع:1119)].
□ جمعہ کے دن نماز فجر میں سورہ سجدہ اور دہر (مسلم)جبکہ نماز جمعہ میں سورہ الجمعة اور المنافقون (مسلم)یا سورہ الأعلی اورالغاشیة(مسلم) كى تلاوت مسنون ہے.
□جمعہ کے دن کو روزے اور رات کو نماز کے لئے خاص کرنا درست نہیں(مسلم).
□نماز جمعہ کے لئے چالیس یا بارہ لوگوں کے موجودگی کی شرط بے بنیاد ہے,لہذا اگر کسی جگہ تین سے زائد لوگ موجود ہوں تو ان کیلئے جمعہ كا قيام درست ہوگا.
□اگر کوئی شخص مجبوری کے سبب نماز جمعہ میں دوسری رکعت کے رکوع سے پہلے شامل ہوجائے تو اسکی نماز جمعہ ہو جا ئے گی ،اور رکوع کے بعد جماعت پانے والے کو سلام کے بعد ظہر کے چار رکعات ادا کرنے ہوں گے
□جمعہ کے روز فوت شدہ کے لئے جنت کی بشارت(عن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ( مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَمُوتُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ أَوْ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ إِلا وَقَاهُ اللَّهُ فِتْنَةَ الْقَبْرِ ) . رواه الترمذي (1074) . وصححه الألباني في "أحكام الجنائز" (ص 49 ، 50) ).۔
□روز جمعہ جنت میں بھی فضیلت کا حامل ہوگا اسے "یوم مزید" کہا جاتا ہے۔
اللہ تعالی ہمیں سنت کے مطابق عبادات کے انجام دہی کی توفیق دے(آمین).
تعليقات
إرسال تعليق