معاشرے میں رائج سودی معاملات اور ان کی تباہ کار یاں
ممتاز عالم نسیم احمد(صبیح اسلامک سینٹر)
مال قوام حیات اور زندگی کی اہم ضرورت یے، ضروریات زندگی کے فراہمی کا ذریعہ ہے،مال سے انسانی محبت فطری ہے،انسان اسکے حصول کیلئے جد و جہد کرتا ہے پھر کوئی فضول خرچی سے کام لیتا ہے تو کوئی بخل و کنجوسی کا شکار ہوتا ہے، فضول خرچی سے بچتے ہوئے مال کی حفاظت کرنا چاہیے مگر بخل و کنجوسی مومن کی صفت نہیں، یہ مال اللہ کی عطاکردہ نعمت بھی ہے اور شدید ترین فتنہ بھی سورہ تغابن میں اللہ تعالی نے مال کو آزمائش قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:(إنما أموالكم وأولادكم فتنة والله عنده أجر عظيم(سورة التغابن:15))اسی طرح پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(عَنْ كَعْبِ بْنِ عِيَاضٍ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ لِكُلِّ أُمَّةٍ فِتْنَةً وَفِتْنَةُ أُمَّتِي المَالُ»: «هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ» [ سنن الترمذي - الزهد (2336) ، مسند أحمد - مسند الشاميين (4/160)حكم الالبانى] : صحيح، الصحيحة (594)) اسی طرح ایک دوسری حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امت پر اپنے خدشہ کو ظاہر کرتے ہوئے فرمایا:(لا الفقر أخشى عليكم .... اور اسى طرح:(عن أبي هريرة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ((ليأتين على الناس زمان، لا يبالي المرء بما أخذ المال، أمن حلال أم من حرام))البخاري 2083
مال کا سب سے بڑا فتنہ جو اس زمانے میں عام ہے وہ سود خوری ہے اور یہودی سب سے پہلی سود خور قوم ہے اللہ نے قرآن میں(فَبِظُلْمٍ مِنَ الَّذِينَ هَادُوا حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ طَيِّبَاتٍ أُحِلَّتْ لَهُمْ وَبِصَدِّهِمْ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ كَثِيرًا وَأَخْذِهِمُ الرِّبَا وَقَدْ نُهُوا عَنْهُ وَأَكْلِهِمْ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ مِنْهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا لَكِنِ الرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ مِنْهُمْ وَالْمُؤْمِنُونَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَالْمُقِيمِينَ الصَّلَاةَ وَالْمُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَالْمُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أُولَئِكَ سَنُؤْتِيهِمْ أَجْرًا عَظِيمًا [النساء:160-162].) سے اسی جانب اشارہ کیا ہے ،نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے انتشار اور کی بابت حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ ربی سے مروی حدیث میں اس طرح دی ہے کہ (عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ((يأتي على الناس زمان يأكلون فيه الربا))، قال: قيل له: الناس كلهم؟ قال: ((من لم يَأكُلْه منهم، نالَه من غُبارِه))؛ والحديث ضعيف من حيث سندُه.
آئیے سطور ذیل میں ہم اس مہلک ناسور کی حرمت اور اس کی تباہ کاریوں اور سماج میں عام چند اقسام کو ملاحظہ فرمائیں:
⇦اللہ تعالی نے سود خوروں کی حالت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:(الذين يأكلون الربا لا يقومون الا كما يقوم الذي يتخبط الشيطان من المس ...)کہ سود خور حشر کے دن اپنے قبر سے اس حالت میں اٹھیں گے کہ ان کا دماغی توازن صحیح نہ ہوگا،حالانکہ وہ حساب کیلئے جا رہے ہوں گے اور اس وقت م ان کا اس حالت میں ہونا تباہی کی جانب اشارہ ہے۔
⇦ان کے اس حالت کی وجہ کیا ہے اللہ تعالی نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:(ذلك بأنهم قالوا إنما البيع مثل الربا وأحب الله البيع وحرم الربا...)کہ وہ ایک گناہ کرتے اور دوسرے کٹھ حجتی کرتے ہوئے کہتے کہ سود بھی تو خرید و فروخت کے ہی مانند ہے،پہلی بات تو یہ جان لیں کہ کسی چیز کو حرام کرنا یا کسی کو حلال کہنا یہ اللہ کا کام ہے، اللہ کا ہر فیصلہ حکمت و فوائد سے پر ہوتا ہے،جو بھی اس میں چوں چرا سے کام لے وہ باغی ہوگا۔
اس کے بعد یہ بھی جاننا چاہیے کہ سود اور تجارت میں کئی اعتبار سے فرق پائے جاتے ہیں نہ کہ ان کے کہنے کے اعتبار سے دونوں ہم مثل ہیں،سود اور تجارت میں متعدد فرق ہیں جن میں سے:
(1)اللہ نے سود کو حرام کیا ہے اور خرید و فروخت یا تجارت کو حلال قرار دیا ہے۔
(2)سود میں نفع کی گارنٹی ہوتی ہے اور نقصان کا امکان ہی نہیں ہوتا جبکہ تجارت میں نفع یا نقصان کی کوئی تحدید نہیں ہوتی۔
(3)خرید و فروخت میں جہد ، محنت و مشقت درکار ہوتی ہے؛انسان کمپنی کمپنی چھان مارتا ہے کہ مال سستا کہاں ملے،مال خرید کر دوکان میں سجانا،پورے دن دوکان میں رہنا،لوگوں سے معاملات طے کرنا،بوقت حاجت نوکر رکھنا وغیرہ بہت سے مشقت انسان کو تجارت میں برداشت کرنے ہوتے ہیں جبکہ سود خور رقم دے کر بڑے ہی راحت کے ساتھ فائدے کا منتظر ہوتا ہے۔
(4)سود میں رقم سے رقم حاصل کی جاتی ہے ایک سال کے بعد دس کی رقم بلا کسی سامان کی خرید و فروخت کے بارہ ہو جاتی ہے اگر کوئی سامان ہوتا بھی ہے تو وہ جو سو دی سامان کہلاتے ہیں۔جبکہ تجارت میں رقم کے بدلے سامان کی فروخت ہوتی ہے۔
(5)تجارت میں مال دیتے وقت ہی منافع ملتا ہے جبکہ سود میں رقم کی واپسی پر۔
لہذا سود اور تجارت یکساں نہیں ہیں ان میں کئی طرح سے فرق پائے جاتے ہیں سود حرام ہے اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے اور ہٹ دھرمی پر اڑے رہنے والے کیلئے اللہ نے ارشاد فرمایا :(فمن جاءه موعظة من ربه فانتهى فله ما سلف وأمره إلى الله ومن عاد فأولئك أصحاب النار هم فيها خالدون)یعنی ایسے لوگ ہمیشہ (لمبی مدت)تک جہنم میں رہیں گے،حضرت انس سے مروی حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(يؤتى بأنعم اهل الدنيا....) دنیا کا سب سے عیش و عشرت میں رہنے والا شخص جب ایک لمحہ جہنم میں داخل کئے جانے کے بعد سختی کے سبب ساری آسانیاں بھول جائے گا تو جو اس میں ہمیشہ یا لمبی مدت تک کیلئے رہے گا اس کا کیا حال ہوگا اور سود خور کیلئے اللہ نے فرمایا :(هم فيها خالدون).
سود ایسا خطرناک جرم ہے کہ اس میں ذرا بھی شمولیت اللہ کی لعنت کا سبب بنتی ہے جیساکہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا(عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ لَعَنَ آكِلَ الرِّبَا وَمُؤْكِلَهُ وَشَاهِدَيْهِ وَكَاتِبَهُ. رَوَاهُ الْخَمْسَةُ، وَصَحَّحَهُ التِّرْمِذِيُّ).
اولاد پر بھی سود خوری کا اثر ہوتا ہے فرمان نبوی ہے غذي بالحرام
اللہ تعالی نے اس کی بے برکتی اور نحوست کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا:(يمحق الله الربا ويربي الصدقات کہ اللہ سود کو مٹاتا اور صدقات کو بڑھاتا ہے،مگر بعض لوگ اشکال پیش کرتے ہیں کہ بعض لوگ کسی لائق نہیں تھے مگر سودی قرض لے کر بن گئے ہائی فائی زندگی جی رہے ہیں مہنگی گاڑیوں میں گھومتے ہیں اچھے اچھے ہوٹلوں میں کھا رہے ہیں... مگر ایسے لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ تقریبا ہر بستی میں ایسے لوگ مل جائیں گے جو سود کی وجہ سے تباہ ہوگئے ان کے پاس گھر بھی تھا چھوٹا موٹا کاروبار بھی تھا،بینک والے آئے اور لالچ دے کر ورغلایا کہ کب تک اس چھوٹے گھر میں رہو گے ہمارے بینک سے کئی اسکیموں کے تحت قرض مل رہا ہے،لے لو بڑا کاروبار شروع کرو اور اچھی زندگی گزارو ، اب محترمہ کے دل میں بھی یہ بات گھر کر جاتی ہے ، اور شوہر کو سود لینے پر مجبور کردیتی ہے آخر کار شوہر ایک مخصوص سودی شرح پر قرض لے لیا،زیادہ پیسے دیکھ کر کچھ دن کافی ہائی فائی زندگی گذری گاڑی، مہنگے ہوٹل اور طرح طرح کی فضول خرچی یہاں تک کہ پیسہ آدھا ہوگیا اور جس تجارت کے نیٹ سے قرض لیا تھا وہ شروع تک نہیں کر سکا جب شروع کیا تو ناتجربہ کاری کے سبب خسارہ برداشت کرنا پڑا اسی طرح قرض کے ادائیگی کا وقت آجاتا ہے اور قرض پر متعین سود ادا کرنا تو درکنار قرض لی ہوئی رقم بھی نہیں کہ وہی لوٹا کر جان چھڑا سکیں اور اب گروی رکھی پراپرٹی کے ضبط (کرک)کی نوبت آجاتی ہے.
خلاصہ یہ کہ اس عمل میں ملوث لوگ اندر سے ہائی فائی تو ہوتے ہیں مگر ان کے دل سے پوچھیں ان پر کیا گذر رہی ہوتی ہے؟کتنے وکیلوں اور تھانوں کا چکر لگارہے ہوتے ہیں .
اسی سود کی وجہ سے اولاد؟بیوی ،بیٹی ،سب تباہ ہو جاتے ہیں ،بیوی ،بیٹیاں سب پینٹ شرٹ پہن کر گھومتے ہیں،گھر بالکل اجڑ کر رہ جاتا ہے.
گھر ہی نہیں پوری بستیاں تباہ ہوجاتی ہیں،کبھی زلزلے تو کبھی سیلاب ،اور کبھی تباہی مچادینے والے سو نامی کے باعث.پھر بھی لوگوں کو احساس تک نہیں ہوتا کہ کس وجہ سے ہے ،کہتے ہیں کہ قدرت میں حرکت آئی اور زلزلہ آیا جس سے یہ فلک سے بات کرتی عمارتیں سیکنڈوں میں زمیں بوس ہوگئی یہ نہیں سمجھتے کہ یہ سودی پیسوں سے تعمیر کئے گئے تھے اور ان میں زناکاری فحاشی کے اڈے کھلے ہوئے تھے ان پر اللہ کا غضب نازل ہوا ہے.
جب کہ اللہ تعالی صدقات کو بڑھاتا ہے زکاة سے مال بڑھتا ہے،شرط یہ ہے کہ انسان بخوشی دل سے زکاة کی ادائیگی کرے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ زکاة کی ادائیگی یا اللہ کے راستے میں خرچ کرنے سے مال تو گھٹتا ہے بڑھتا کہاں ہے .
ويربي الصدقات كى صورت:
تو ایسےلوگوں کو اپنے سماج اورمعاشرے میں غور کرنا چاہئے کہ زکاة نکالنے والے نے زکاة نکالا ابھی تک اس کا جو مال کافی وقت سے پڑا تھا اس کے نکلنے کی کوئی امید نہ تھی کوئی پارٹی آکر اسے بھاری داموں میں خرید لیتی ہے.
یہی نہیں زکاةدینے والے کے تمام امور میں برکت نازل ہوتی ہے،وہ ہمیشہ خوش وخرم ہوتا ہے کہا جاتاہے کہ ایک شخص کی تنخواہ آج سے کوئی تیس چالیس سال قبل 30000 تھی جو مہینے کے خاتمہ تک مقروض ہوجایا کرتے تھے ،انھیں کے ملنے جلنے والوں میں ایک معمولی ٹائپسٹ بھی تھے جن کی تین شادیاں ہوئی تھیں کئی بچے تھے سبھی اچھے اسکول میں پڑھ بھی رہے تھے زندگی بھی خوشی خوشی گزر رہی تھی راز پوچھا گیا تو کسب حلال بتائی گئی تو یقینا حلال کمائی میں برکت ہے جبکہ حرام کمائی کہاں سے آتی ہے کہاں جاتا معلوم تک نہیں ہوتا خواہ کتنا ہی زیادہ کیوں نہ ہو.
سود کی نحوست اور خطرناکی کا عالم تو یہ ہے کہ صرف گھر اور بستیاں ہی نہیں بلکہ ملک کے ملک غلامی کی زندگی گذارنے پر مجبور ہوجاتے ہیں اقوام متحدہ یا ورلڈ بینک سے قرض لے کر اسے صدیوں تک ادا نہیں کرسکتے پھر پورا ملک غلامی کی زنجیروں میں جکڑ جاتا ہے،،،یہ سودی معاملات دنیا کو تباہ کرنے کیلئے یہودیوں کی حیلہ سازیان ہیں قرض کی لالچ دے کر لوگوں کو اپنے جال میں پھنسا لیتے ہیں اور پھر انہیں غلامی کے دلدل میں پھنسا کر رکھ دیتے ہیں.
سود خورون اور اس میں کسی بھی طرح کی شمولیت اختیار کرنے والوں کو اللہ کے لعنت کی وعید سنائی گئی ہے،پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: لعن الله أكل الربا و موكله وكاتبه وشاهديه.وقال :هم سواء
یاد رہے کہ لعنت کوئی معمولی چیز نہیں بلکہ اس کے معنی اللہ کی رحمت اور ہر طرح کے چین و سکون سے دوری ہے.
اللہ تعالی کا فرمان ہے:(يايهاالذين آمنوا اتقوالله وذروا ما بقي من الربا أن كنتم مؤمنين فإن لم تفعلوا فاذنوا بحرب من الله ورسوله)
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے سود خوری نہ ترک کرنے والے کے ایمان کو جھنجوڑا ہے کہ جو شخص نہ چھوڑے ایسے شخص کے پاس نہ تقوی ہے اور نہ ہی مضبوط ایمان اگر پھر بھی کوئی اڑے رہ جائے تو ایسے شخص کو اللہ و رسول سے اعلان جنگ کیا گیا ہے،کون ہے جو یہ طاقت جٹا پائے ؟کون ہے جو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرکے نجات پاسکے.
امام مالک کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا میں نے راستے میں ایک شرابی کو دیکھا کہ وہ شراب کے نشے میں چاند کو ہاتھ سے پکڑنے کی کوشش کررہا ہے میں نے اس کے اس جنون کو دیکھ کر قسم اٹھالیا کہ اگر کھانے پینے والی چیزوں میں شراب سے زیادہ خراب کوئی چیز ہے تو میری بیوی کو طلاق تو کیا میرے بیوی کو طلاق واقع ہوگیا، امام صاحب نے خوب سوچا اور پھر کہا کل آو میں تمہیں مراجعہ کرکے بتاتا ہوں،کل بھی امام صاحب نے اسے یہی کہہ کر لوٹا دیا پھر پرسوں بھی اسکے بعد آنے پر کہا ہاں تمہاری بیوی کو طلاق ہوگیا کیونکہ قرآن میں کسی چیز کے کھانے پر اللہ اور اسکے رسول سے جنگ کا اعلان نہیں سوائے سود خوری کے(اس قصے کو امام قرطبی نے اپنی تفسیر میں نقل کیا ہے) اللہ کا ہرنظام مبنی بر انصاف ہے اللہ تعالی نے سود کے بیان کے پس منظر میں ارشاد فرمایا:( وإن تبتم فلكم رؤوس أموالكم ...) کہ انسان کا جو اصل مال ہے اس پر اسی کا حق ہے البتہ دوسروں کے مال پر حرام طریقے سے ظالمانہ قبضہ درست نہیں!
اللہ تعالی نے ایک اور جگہ سود خوری سے منع فرمایا ہے اور کہا ہے کہ
اگر تم اس سے دور رہو گے تو کامیاب ہو گے بصورت دیگر کامیاب محال ہے(کامیابی کو کوئی گارنٹی نہیں):(ياايهاالذين آمنوا لا تأكلوا الربا أضعاف مضاعفة واتقوالله لعلكم تفلحون)
تنبیہ:اس آیت میں موجود "أضعافا مضاعفة" سے کسی کو یہ غلطی نہیں ہونی چاہیے کہ سود کہ صرف یہی صورت منع ہے ، بلکہ اس میں صرف اس وقت مشرکین کے یہاں موجودہ صورتحال کی جانب اشارہ ہے ،کہ یہ بدرجہ او لی حرام ہے مگر دیگر ایات میں سود کو مطلق حرام قراردیا گیا ہے.
اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالی ہے :واتقوالنار التي وقودها الناس والحجارة... جس اس جانب ایماء ہے کہ ایسے شخص کے حالت کفر میں وفات کا خدشہ ہے.
حدیث سود کو سات ہلاک کرنے والے گناہوں میں شمار کیا گیا ہے.سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خواب کا تذکرہ ہے اس میں اس گناہ میں ملوث لوگوں کی خاطر قبر میں خون کے ندی میں تیرنے رہنے کی سخت عذاب وارد ہے.کوئی تصور بھی نہین کرسکتا کہ نسان بدبو دار خون کی ندی میں رہے گا اس سے نکل بھی نہیں سکتا وہ تو خون کے ندی میں رہنے کی بات ہے کوئی عام ندی یا عام جگہ پر بھی کچھ دیر کھڑا رہنے سے کتراتا ہے!
ایک حدیث میں اسے دنیا میں عذاب الہی کے استحقاق کا سبب بتایا گیا ہے:إذا ظهر الزنا واربا في قرية فقد احلوا عذاب الله کہ جب کسی بستی میں یہ دونوں گناہ ظاہر ہوجائیں تو سمجھ لو کہ ان پر عذاب آنے والا ہے.
عذاب پر عذاب آرہے ہیں ،زلزلے آتے رہتے ہیں بڑی بڑی عمارتیں زمین بوس ہوجاتی ہیں مگر لوگ قدرت میں ہلچل سمجھ کر ٹال جاتے ہیں عبرت نہیں پکڑتے کہ ان عمارتوں میں زناکاری ہوتے تھے اور تعمیر سودی مال سے ہوا تھا . اللہ ہمیں غفلت سے محفوظ رکھے.
حضرت عبداللہ بن حنطلہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا درهم ربا يأكله الرجل وهو يعلمه أشد من ستة وثلاثين زنية(اس حدیث کی تخریج امام احمد اور طبرانی"کبیر"نے کی ہے البانی نے اسے صحیح قرار دیا).
درہم چاندی والی چونی(200درہم کا ساڑھے باون تولہ ہوتا ہے)ایک درہم ربع تولہ ہوگا(تین گرام چاندی).اگر اس معمولی مقدار میں بھی کوئی جان بوجھ کر سود کی رقم کھالے تو یہ 36مرتبہ زنا سے بھی زیادہ قبیح ہے.
اور زنا تو ہر سماج اور معاشرے میں قبیح ہے،سب اسے برا اور گھناؤنا فعل مانتے ہیں ،اسلام نے اس کے مرتکب پر سخت سزا متعین کرکے اس کی شناعت کو اور واضح کردیا ہے،اسلام کی رو سے اس عمل کے مرتکب کنوارے اور کنواری کو سو کوڑے کے ساتھ ایک سال کے کیلئے دیش بدر کرنا ہے.
جبکہ شادی شدہ کو سو کوڑے کے بعد پتھر سے مار مار کر موت کی نیند سلانا ہے.
جو کہ زنا کی قباحت کے ہی وجہ سے ہے کہ اس کے مرتکب کو اتنی سخت سزا دی جاتی ہے.
اس کے علاوہ دنیا میں بھی اس فعل حرام کی پاداش میں انسان کو سخت اذیتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ،عزت آبرو تباہ ہوجاتی ہے ،سماج خراب ہوجاتا ہے،نسب میں اختلاط ہوجاتا ہے،ایڈز کی خطرناک بیماری بھی اسی حرام کاری کے سبب لاحق ہوتی ہے.
کیا ہم نے غور کیا کہ مذکورہ سزائیں اور تباہ کاریاں ایک بار زنا کے بارے میں ہیں ،،،اور ایک درہم سود کو 36 بار سے خطرناک قرار دیا گیا ہے،
یہی نہیں بلکہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی فرمان ہے کہ(الربا ثلاث وسبعون بابا أيسرها مثل أن ينكح الرجل أمه ) سود کے73 درجے ہیں جن کا ادنی درجہ ایسے ہے کہ کوئی اپنی ماں سے منھ کالا کرے.
زنا کی قباحت تو معروف ہے ہی،انسان کا ضمیر ان سے ہی اس فعل کو گوارہ نہ کرے لیکن ماں کے ساتھ زنا کے بارے میں تو کوئی خراب سے خراب شخص بھی سوچ تک نہیں سکتا...مطلب یہ کہ سود خوری کس قدر بڑا گناہ ہے.
سود خوری کے کئی اخلاقی تباہیاں بھی ہیں ،اس کے سبب انسان :
1-سخت مزاج اور بدبخت ہوجاتا ہے.
2-انسان سے امانتداری ختم ہوجاتی ہے.(کیونکہ بینک سے قرض لیتے وقت کئی طرح کی فارملٹی پورا کرتا ہے گواہ بنائے جاتے ہیں سختی ہوتی،شرائط و ضوابط کا پاس رکھنا ضروری ہے اب اگر کوئی قرض حسن دے کر مدد کرنا چاہے تو اس پر مصیبت کھڑی کردیا جاتا ہے قرض کے واپسی کی طلب پر اسے مقروض ٹھہرانے میں بھی لوگ کوئی کسر نہیں چھوڑتے.
3-مالدار مالدار تر ہوتے رہتا ہے،اور غریب غریب تر (نسلوں کی نسلیں قرض میں ڈوب جاتی ہیں).
عبادتین قبول نہیں ہوتی (مسجد مدرسہ میں چندے دینے سے یہ سو دی معاملات کے سبب حاصل کردہ مال پاک نہیں ہوتا اگر بلا بتائے دے اور اسے کہیں لگا دیا جائے تو انسان گنہگار بھی ہوگا.
4-مہنگائی بڑھتی ہے،بے روزگاری میں اضافہ ہوتا ہے.
اب آئیے ہم دیکھتے ہیں سود کہتے کسے ہیں ، سود کن کن اشیاء میں ہوتا ہے اور معاشرے میں اس کی موجودہ شکلیں کون کون سی ہیں ؟
معاشرے میں رائج سود کی مختلف شکلیں:
1-سودی قرض:چاہے بینک سے لیا جائے ، یا مہاجن سے چاہے اسے لینے کا مقصد دھوم دھام سے شادی کرنا ہو یا جدید دور کے حساب سے اچھی زندگی گزارنا یا سفر کے لئے چاہے پڑھائی کی تکمیل یا گھر کی خریداری کے غرض سے یا کارو بار چمکانے کیلئے یا پھر زیورات کی خریداری کے مقصد سے۔
غرضیکہ جس بھی غرض سے سو دی قرض لیا جائے وہ حرام ہی ہوگا۔
2-ہیوی ڈپازٹ:معاشرے میں سود کی ایک عام اور رائج شکل یہ بھی ہے کہ مکان مالک کو ایک موٹی رقم دیدیا جاتا ہے اور اس کے بدلے میں اس کا گھر بلا معاوضہ استعمال کرتا ہے،یا اگر کرایہ متعین بھی کیا جائے تو رائج کرائے سے بالکل کم مقدار میں بالکل معمولی ہوتا ہے جو کہ کسی واسطہ اور خیر کوتاہی کے سبب نہیں بلکہ اس قرض کے سبب ہوتا ہے اور قاعدہ ہے کہ ہر وہ قرض جو نفع لائے وہ سود ہوگا۔
كل قرض جر منفعة فهو ربا
: 3-سونے اور چاندی کے زیورات کا قسطوں پر خریدنا بھی آج کل معاشرے میں رائج ہے نئے ماڈل کے نام پر لوگ دیوانہ وار خریداری کرتے ہیں،کیونکہ یہ خدمت قسط میں بھی میسر ہوتی ہے، یا پرانے کے بدلے نیا زیور خریدا جاتاہے جس میں اول تو یہ کہ پرانے کے نام پر میل اور ٹانکے کے نام پر کچھ کم اس کی اہمیت کو گھٹا دیا جاتا ہے یہی نہیں بلکہ تجربہ کار لوگوں کے مطابق اگر تین مرتبہ کوئی سونار کے پاس چلا جائے تو اسے گھر سے دینا پڑے گا۔
ثانیا یہ کہ پرانے زیورات کا رکھ لینا بھی يدا بيد کی شرط سے عاری ہوتی ہے،اور یہ سو دی معاملہ ہو جاتا ہے۔
4-چینج یا بندھا لیتے وقت بھی لوگ برابر سرابر اور ہاتھوں ہاتھ کی رعایت نہیں کرتے ، معلوم ہو نا چاہیے کہ اگر جنس(قیمت)اور نوعیت(روپیہ/ڈالر/ریال)میں موافقت کی صورت میں مذکورہ دونوں شروط کی رعایت ضروری ہوگی،مثال کے طور پر کوئی ایک دے کر سو سو کا چینج مانگے تو اسے ایک ہی ہزار دینا ہوگا اگر کوئی اس کے بدلے ساڑھے نو سو ہی دے تو یہ معاملہ سو دی ہوگا اسی طرح کوئی دوہزار کے نوٹ لے بدلے دو ہزار پچاس کا مطالبہ کرے تو بھی معاملہ درست نہ ہوگا۔لیکن اگر نوعیت میں اختلاف ہو جیسے ریال کے بدلے روپیہ لیتے وقت سواء بسواء کی شرط ختم ہوجائے گی۔
5-بسی کے حصے کو جلدی کچھ بڑھا کر بیچنا مثلا کوئی شریک کار بسی کے حصے کا صرورتمند تو ہو مگر نام کسی اور کا نکل جائے اب ضرورتمند خود کہے یا سامنے والا کہ میں تمہیں اسے حصے کو چھ ماہ کی مدت کیلئے ایک لاکھ بیس ہزار پر فروخت کرتا ہوں یہ صورت حرام ہے ، ہاں بسی کی اصل صورت جائز ہے اس میں کوئی شبہ نہیں وہ خیر اور بھلائی کے کام ایک دوسرے کا تعاون ہے بلکہ یہ سود سے آزاد معاشرے کی بنیاد بھی ہوسکتی ہے۔بسی کی معروف صورت یہ ہے کہ کئی لوگ ہر ماہ ایک متعین رقم جمع کریں اور قرعہ کے ذریعہ ہر ماہ کسی کو دیدیں،اسی طرح ہر ماہ الگ الگ شخص کی باری آئے،شریک لوگ آخری شخص کی باری آنے تک متعین رقم بھرتے رہیں،اس میں لوگوں کا پیسہ بلا کمی و نقص ان کو ملتا ہے اور رقم چھوٹی ہونے کے سبب کوئی دشواری بھی نہیں ہوتی اور ضرورتمند کا کام بھی چل جاتا ہے۔اس صورت میں ذمہ دار کی تنخواہ مقرر کی جاسکتی ہے مگر رقم کا بینک میں جمع کر اس کا فائدہ کھانا بھی سود ہی ہوگا(کسی سوسائٹی کے خازن کیلئے بھی یہی بات کہی چائے گی کیونکہ سود سود ہوتا ہے چاہے اپنا پیشہ ہو یا سوسائٹی کا)۔
7-قسطوں پر گاڑی خریدنا اگر ڈائرکٹ شوروم سے معاملہ طے ہو تو قسط پر کوئی حرج نہیں لیکن بینک کی مداخلت کے سبب اور شوروم کا بینک سے پیسے لے لینا اور پھر بینک کا خریدار سے قسطوں میں رقم وصول کرنا،یہی حرمت کا سبب ہے۔
8-انسورنش(تأمینات):سود بھی اور جوا بھی ؛کبھی صاحب معاملہ تو کبھی کمپنی کا نفع یا نقصان ہوتا ہے
اس میں اللہ پر ے تو کل کہ کمزوری بھی نظر آتی ہے،کیونکہ بینک یا انشورنس کمپنیاں آکر آدمی کو ورغلاتی ہیں کہ زندگی کابھروسہ نہیں بچوں کا کون سہارا ہوگا اب انسان بچوں کی محبت میں یہ کام کرتا ہے اور وہ بھول جاتا ہے کہ ہمارا اور بچوں کا مالک صرف اللہ تعالی ہے.
تنبیہ:گاڑیوں کا انشورنس چونکہ ضروری ہوتا ہے بغیر اس کے سڑک پر نہیں اتاری جا سکتی تو یہ مجبوری شمار ہوگی والضرورة تقدر بقدرها.
9-سودی کاروبار کے لئے دوکان و مکان کرایہ پر دینا بھی آج کل بالکل عام ہے حالانکہ ان معاملات میں گواہی جیسی ذرا سی مشارکت بھی باعث لعنت ہے دوکان و مکان کرایہ پر دینا تو اسے بڑھاوا دینا ہے.
10-سو دی بینکوں میں نوکری یا سو دی قرض کے وصولی کے لئے پارٹ ٹائم جوب کرنا بھی حرام ہے.
11-پی اف(PF) کی رقم :کسی سرکاری سیکٹر میں کام کرنے والوں کو سبکدوشی کے بعد جو رقم دی جاتی ہے اسے پی اف کہا جاتا ہے اصل میں اس رقم میں تین طرح کے پیسے شامل ہوتے ہیں:
1- تنخواہ سے ماہانہ کٹنے والی مخصوص رقم.
2-کمپنی کی طرف سے سبکدوشی کا ہدیہ.
3-تنخواہ سے کٹنے والی رقم کے بینک میں جمع کرنے پر حاصل شدہ سو دی شرح.
پہلے کے دو انسان کا حق ہے مگر تیسرا سود ہوگا اسے اسی کے مصرف میں خرچ کیا جائے گا.
12-آج کل بینکوں میں بچی یا بچے کی شادی دھوم دھام سے اور ہائی فائی طریقے سے کرنے کیلئے اس کی ولادت کے وقت ہی کچھ پیسے جمع کردیئے جاتے ہیں،جو بڑھتا رہتا ہے اور اس سے شادی کے انتظامات کئے جاتے ہیں یہ بھی سود ہے ایسا کرنے والے بھی لعنت کے مستحق ہیں .
13-خواتین کے پاس موجودہ رقم بینک میں رکھ دیا جاتا ہے تاکہ خرچ نہ ہو اس میں میں جو سود آتا ہے حرام ہی ہے.
14-بیع عینہ یعنی:کوئی پریشان شخص دوکاندار کے پاس آئے اور کہے کہ مجھے ایک ہزار روپیوں کی ضرورت ہے اور قرض طلب کرے مگر دوکاندار قرض تو نہ دے مگر کوئی چیز اس سے ایک مدت کیلئے 1200 میں ادھار خریدنے بات کہے اور پھر اس سے وہی چیز 1000میں نقد خرید لے...کان چاہے یہاں سے پکڑیں یا وہاں سے یہ بھی سود ہی ہے.
15-کمپنیوں کے شیئر کی خریداری بھی سود میں داخل ہوگی کیونکہ کمپنی والے ظاہر تو کرتے ہیں کہ ہماری تجارت حلال ہے مگر س میں حرم بھی ہوتا ہے، وہ اس طرح کہ آدھی مالیت بینک میں رکھ دیتے ہیں تاکہ اگر خسارہ ہو تو یہ کام آئے لیکن اگر کمپنی کے اصول مضاربت کی شروط پر پورا اترتے ہیں تو ان کے ساتھ معاملہ درست ہوگا (بصورت دیگر نہیں)
16-لائٹ بل کی تاخیر سے ادائیگی پر وصول کی جانے والی رقم بھی سود ہے .
17-شوروم سے سونا بیس % پر خریدنا اور نفع دیکھ کر بیچنے کا رواج آج کے ایلکٹرانک معاشرے میں بالکل عام ہے،جسے لوگ آن لائن بزنس کا نام دیتے ہیں اس میں ہوتا یہ ہے کہ کمپنی سے سونے کو 20% پر اپنے نام کرلیا جاتا ہے ویسے سونا اپنی جگہ سے ہلتا تک نہیں بس نام لکھ دیا جاتا ہے اب انسان مخصوص وقت میں بیچ لیا تو ٹھیک ورنہ پھر کمپنی کو واپس ہوجاتا ہے یہ ایک طرح سے جوا ہے اور سو نے کی بیع و شراء میں ہاتھوں کی شرط پائی جاتی ہے جو اس میں نہیں ہے.
18- لکی ڈرا اسکیمیں یا اس طرح کی دوسری نوعیت جو معاشرے میں عام ہیں وہ بھی حرام اور ناجائز ہے وہ بھی جوا اور سود کے مجموعے ہیں .
19-دوسرے کا پیسہ لے کر کاروبار کرنا اور اسے ہر ماہ مخصوص رقم ادا کرنا بھی سود ہے ہاں اگر نفع و نقصان میں نسبت طے کرلی جائے تو درست ہوگا .
20-قرض کے بدلے مرہون چیز سے استفادہ بھی سود ہی ہے.
الا یہ کہ مرہون کوئی جانور ہو تو اس کے خرچ کے بقدر استفادہ کرنے میں کوئی حرج نہیں .
21-موبائل بیلنس لون لینا بھی سود ہے
22-چیک کی تاریخ سے پہلے مبلغ حاصل کرنے کے لئے اضافی فیس بھی سود ہے.
23- کریڈٹ کارڈ سے پیسے لینا بھی سود ہی ہے اگر چہ قرض شرح سود سے قبل لوٹا دیں کیونکہ پہلے عقد پر دستخط سو دی معاملے پر ہوچکا ہے.
24- قرض خواہ کو ہدیہ دینا یا اس کا قبول کرنا بھی سود ہے
25-سیونگ بینک اکاؤنٹ میں آنے والا سہ ماہی اماونٹ بھی سود ہے.
اولاد پر بھی سود خوری کا اثر ہوتا ہے فرمان نبوی ہے غذي بالحرام
اللہ تعالی نے اس کی بے برکتی اور نحوست کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا:(يمحق الله الربا ويربي الصدقات کہ اللہ سود کو مٹاتا اور صدقات کو بڑھاتا ہے،مگر بعض لوگ اشکال پیش کرتے ہیں کہ بعض لوگ کسی لائق نہیں تھے مگر سودی قرض لے کر بن گئے ہائی فائی زندگی جی رہے ہیں مہنگی گاڑیوں میں گھومتے ہیں اچھے اچھے ہوٹلوں میں کھا رہے ہیں... مگر ایسے لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ تقریبا ہر بستی میں ایسے لوگ مل جائیں گے جو سود کی وجہ سے تباہ ہوگئے ان کے پاس گھر بھی تھا چھوٹا موٹا کاروبار بھی تھا،بینک والے آئے اور لالچ دے کر ورغلایا کہ کب تک اس چھوٹے گھر میں رہو گے ہمارے بینک سے کئی اسکیموں کے تحت قرض مل رہا ہے،لے لو بڑا کاروبار شروع کرو اور اچھی زندگی گزارو ، اب محترمہ کے دل میں بھی یہ بات گھر کر جاتی ہے ، اور شوہر کو سود لینے پر مجبور کردیتی ہے آخر کار شوہر ایک مخصوص سودی شرح پر قرض لے لیا،زیادہ پیسے دیکھ کر کچھ دن کافی ہائی فائی زندگی گذری گاڑی، مہنگے ہوٹل اور طرح طرح کی فضول خرچی یہاں تک کہ پیسہ آدھا ہوگیا اور جس تجارت کے نیٹ سے قرض لیا تھا وہ شروع تک نہیں کر سکا جب شروع کیا تو ناتجربہ کاری کے سبب خسارہ برداشت کرنا پڑا اسی طرح قرض کے ادائیگی کا وقت آجاتا ہے اور قرض پر متعین سود ادا کرنا تو درکنار قرض لی ہوئی رقم بھی نہیں کہ وہی لوٹا کر جان چھڑا سکیں اور اب گروی رکھی پراپرٹی کے ضبط (کرک)کی نوبت آجاتی ہے.
خلاصہ یہ کہ اس عمل میں ملوث لوگ اندر سے ہائی فائی تو ہوتے ہیں مگر ان کے دل سے پوچھیں ان پر کیا گذر رہی ہوتی ہے؟کتنے وکیلوں اور تھانوں کا چکر لگارہے ہوتے ہیں .
اسی سود کی وجہ سے اولاد؟بیوی ،بیٹی ،سب تباہ ہو جاتے ہیں ،بیوی ،بیٹیاں سب پینٹ شرٹ پہن کر گھومتے ہیں،گھر بالکل اجڑ کر رہ جاتا ہے.
گھر ہی نہیں پوری بستیاں تباہ ہوجاتی ہیں،کبھی زلزلے تو کبھی سیلاب ،اور کبھی تباہی مچادینے والے سو نامی کے باعث.پھر بھی لوگوں کو احساس تک نہیں ہوتا کہ کس وجہ سے ہے ،کہتے ہیں کہ قدرت میں حرکت آئی اور زلزلہ آیا جس سے یہ فلک سے بات کرتی عمارتیں سیکنڈوں میں زمیں بوس ہوگئی یہ نہیں سمجھتے کہ یہ سودی پیسوں سے تعمیر کئے گئے تھے اور ان میں زناکاری فحاشی کے اڈے کھلے ہوئے تھے ان پر اللہ کا غضب نازل ہوا ہے.
جب کہ اللہ تعالی صدقات کو بڑھاتا ہے زکاة سے مال بڑھتا ہے،شرط یہ ہے کہ انسان بخوشی دل سے زکاة کی ادائیگی کرے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ زکاة کی ادائیگی یا اللہ کے راستے میں خرچ کرنے سے مال تو گھٹتا ہے بڑھتا کہاں ہے .
ويربي الصدقات كى صورت:
تو ایسےلوگوں کو اپنے سماج اورمعاشرے میں غور کرنا چاہئے کہ زکاة نکالنے والے نے زکاة نکالا ابھی تک اس کا جو مال کافی وقت سے پڑا تھا اس کے نکلنے کی کوئی امید نہ تھی کوئی پارٹی آکر اسے بھاری داموں میں خرید لیتی ہے.
یہی نہیں زکاةدینے والے کے تمام امور میں برکت نازل ہوتی ہے،وہ ہمیشہ خوش وخرم ہوتا ہے کہا جاتاہے کہ ایک شخص کی تنخواہ آج سے کوئی تیس چالیس سال قبل 30000 تھی جو مہینے کے خاتمہ تک مقروض ہوجایا کرتے تھے ،انھیں کے ملنے جلنے والوں میں ایک معمولی ٹائپسٹ بھی تھے جن کی تین شادیاں ہوئی تھیں کئی بچے تھے سبھی اچھے اسکول میں پڑھ بھی رہے تھے زندگی بھی خوشی خوشی گزر رہی تھی راز پوچھا گیا تو کسب حلال بتائی گئی تو یقینا حلال کمائی میں برکت ہے جبکہ حرام کمائی کہاں سے آتی ہے کہاں جاتا معلوم تک نہیں ہوتا خواہ کتنا ہی زیادہ کیوں نہ ہو.
سود کی نحوست اور خطرناکی کا عالم تو یہ ہے کہ صرف گھر اور بستیاں ہی نہیں بلکہ ملک کے ملک غلامی کی زندگی گذارنے پر مجبور ہوجاتے ہیں اقوام متحدہ یا ورلڈ بینک سے قرض لے کر اسے صدیوں تک ادا نہیں کرسکتے پھر پورا ملک غلامی کی زنجیروں میں جکڑ جاتا ہے،،،یہ سودی معاملات دنیا کو تباہ کرنے کیلئے یہودیوں کی حیلہ سازیان ہیں قرض کی لالچ دے کر لوگوں کو اپنے جال میں پھنسا لیتے ہیں اور پھر انہیں غلامی کے دلدل میں پھنسا کر رکھ دیتے ہیں.
سود خورون اور اس میں کسی بھی طرح کی شمولیت اختیار کرنے والوں کو اللہ کے لعنت کی وعید سنائی گئی ہے،پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: لعن الله أكل الربا و موكله وكاتبه وشاهديه.وقال :هم سواء
یاد رہے کہ لعنت کوئی معمولی چیز نہیں بلکہ اس کے معنی اللہ کی رحمت اور ہر طرح کے چین و سکون سے دوری ہے.
اللہ تعالی کا فرمان ہے:(يايهاالذين آمنوا اتقوالله وذروا ما بقي من الربا أن كنتم مؤمنين فإن لم تفعلوا فاذنوا بحرب من الله ورسوله)
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے سود خوری نہ ترک کرنے والے کے ایمان کو جھنجوڑا ہے کہ جو شخص نہ چھوڑے ایسے شخص کے پاس نہ تقوی ہے اور نہ ہی مضبوط ایمان اگر پھر بھی کوئی اڑے رہ جائے تو ایسے شخص کو اللہ و رسول سے اعلان جنگ کیا گیا ہے،کون ہے جو یہ طاقت جٹا پائے ؟کون ہے جو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرکے نجات پاسکے.
امام مالک کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا میں نے راستے میں ایک شرابی کو دیکھا کہ وہ شراب کے نشے میں چاند کو ہاتھ سے پکڑنے کی کوشش کررہا ہے میں نے اس کے اس جنون کو دیکھ کر قسم اٹھالیا کہ اگر کھانے پینے والی چیزوں میں شراب سے زیادہ خراب کوئی چیز ہے تو میری بیوی کو طلاق تو کیا میرے بیوی کو طلاق واقع ہوگیا، امام صاحب نے خوب سوچا اور پھر کہا کل آو میں تمہیں مراجعہ کرکے بتاتا ہوں،کل بھی امام صاحب نے اسے یہی کہہ کر لوٹا دیا پھر پرسوں بھی اسکے بعد آنے پر کہا ہاں تمہاری بیوی کو طلاق ہوگیا کیونکہ قرآن میں کسی چیز کے کھانے پر اللہ اور اسکے رسول سے جنگ کا اعلان نہیں سوائے سود خوری کے(اس قصے کو امام قرطبی نے اپنی تفسیر میں نقل کیا ہے) اللہ کا ہرنظام مبنی بر انصاف ہے اللہ تعالی نے سود کے بیان کے پس منظر میں ارشاد فرمایا:( وإن تبتم فلكم رؤوس أموالكم ...) کہ انسان کا جو اصل مال ہے اس پر اسی کا حق ہے البتہ دوسروں کے مال پر حرام طریقے سے ظالمانہ قبضہ درست نہیں!
اللہ تعالی نے ایک اور جگہ سود خوری سے منع فرمایا ہے اور کہا ہے کہ
اگر تم اس سے دور رہو گے تو کامیاب ہو گے بصورت دیگر کامیاب محال ہے(کامیابی کو کوئی گارنٹی نہیں):(ياايهاالذين آمنوا لا تأكلوا الربا أضعاف مضاعفة واتقوالله لعلكم تفلحون)
تنبیہ:اس آیت میں موجود "أضعافا مضاعفة" سے کسی کو یہ غلطی نہیں ہونی چاہیے کہ سود کہ صرف یہی صورت منع ہے ، بلکہ اس میں صرف اس وقت مشرکین کے یہاں موجودہ صورتحال کی جانب اشارہ ہے ،کہ یہ بدرجہ او لی حرام ہے مگر دیگر ایات میں سود کو مطلق حرام قراردیا گیا ہے.
اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالی ہے :واتقوالنار التي وقودها الناس والحجارة... جس اس جانب ایماء ہے کہ ایسے شخص کے حالت کفر میں وفات کا خدشہ ہے.
حدیث سود کو سات ہلاک کرنے والے گناہوں میں شمار کیا گیا ہے.سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خواب کا تذکرہ ہے اس میں اس گناہ میں ملوث لوگوں کی خاطر قبر میں خون کے ندی میں تیرنے رہنے کی سخت عذاب وارد ہے.کوئی تصور بھی نہین کرسکتا کہ نسان بدبو دار خون کی ندی میں رہے گا اس سے نکل بھی نہیں سکتا وہ تو خون کے ندی میں رہنے کی بات ہے کوئی عام ندی یا عام جگہ پر بھی کچھ دیر کھڑا رہنے سے کتراتا ہے!
ایک حدیث میں اسے دنیا میں عذاب الہی کے استحقاق کا سبب بتایا گیا ہے:إذا ظهر الزنا واربا في قرية فقد احلوا عذاب الله کہ جب کسی بستی میں یہ دونوں گناہ ظاہر ہوجائیں تو سمجھ لو کہ ان پر عذاب آنے والا ہے.
عذاب پر عذاب آرہے ہیں ،زلزلے آتے رہتے ہیں بڑی بڑی عمارتیں زمین بوس ہوجاتی ہیں مگر لوگ قدرت میں ہلچل سمجھ کر ٹال جاتے ہیں عبرت نہیں پکڑتے کہ ان عمارتوں میں زناکاری ہوتے تھے اور تعمیر سودی مال سے ہوا تھا . اللہ ہمیں غفلت سے محفوظ رکھے.
حضرت عبداللہ بن حنطلہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا درهم ربا يأكله الرجل وهو يعلمه أشد من ستة وثلاثين زنية(اس حدیث کی تخریج امام احمد اور طبرانی"کبیر"نے کی ہے البانی نے اسے صحیح قرار دیا).
درہم چاندی والی چونی(200درہم کا ساڑھے باون تولہ ہوتا ہے)ایک درہم ربع تولہ ہوگا(تین گرام چاندی).اگر اس معمولی مقدار میں بھی کوئی جان بوجھ کر سود کی رقم کھالے تو یہ 36مرتبہ زنا سے بھی زیادہ قبیح ہے.
اور زنا تو ہر سماج اور معاشرے میں قبیح ہے،سب اسے برا اور گھناؤنا فعل مانتے ہیں ،اسلام نے اس کے مرتکب پر سخت سزا متعین کرکے اس کی شناعت کو اور واضح کردیا ہے،اسلام کی رو سے اس عمل کے مرتکب کنوارے اور کنواری کو سو کوڑے کے ساتھ ایک سال کے کیلئے دیش بدر کرنا ہے.
جبکہ شادی شدہ کو سو کوڑے کے بعد پتھر سے مار مار کر موت کی نیند سلانا ہے.
جو کہ زنا کی قباحت کے ہی وجہ سے ہے کہ اس کے مرتکب کو اتنی سخت سزا دی جاتی ہے.
اس کے علاوہ دنیا میں بھی اس فعل حرام کی پاداش میں انسان کو سخت اذیتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ،عزت آبرو تباہ ہوجاتی ہے ،سماج خراب ہوجاتا ہے،نسب میں اختلاط ہوجاتا ہے،ایڈز کی خطرناک بیماری بھی اسی حرام کاری کے سبب لاحق ہوتی ہے.
کیا ہم نے غور کیا کہ مذکورہ سزائیں اور تباہ کاریاں ایک بار زنا کے بارے میں ہیں ،،،اور ایک درہم سود کو 36 بار سے خطرناک قرار دیا گیا ہے،
یہی نہیں بلکہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی فرمان ہے کہ(الربا ثلاث وسبعون بابا أيسرها مثل أن ينكح الرجل أمه ) سود کے73 درجے ہیں جن کا ادنی درجہ ایسے ہے کہ کوئی اپنی ماں سے منھ کالا کرے.
زنا کی قباحت تو معروف ہے ہی،انسان کا ضمیر ان سے ہی اس فعل کو گوارہ نہ کرے لیکن ماں کے ساتھ زنا کے بارے میں تو کوئی خراب سے خراب شخص بھی سوچ تک نہیں سکتا...مطلب یہ کہ سود خوری کس قدر بڑا گناہ ہے.
سود خوری کے کئی اخلاقی تباہیاں بھی ہیں ،اس کے سبب انسان :
1-سخت مزاج اور بدبخت ہوجاتا ہے.
2-انسان سے امانتداری ختم ہوجاتی ہے.(کیونکہ بینک سے قرض لیتے وقت کئی طرح کی فارملٹی پورا کرتا ہے گواہ بنائے جاتے ہیں سختی ہوتی،شرائط و ضوابط کا پاس رکھنا ضروری ہے اب اگر کوئی قرض حسن دے کر مدد کرنا چاہے تو اس پر مصیبت کھڑی کردیا جاتا ہے قرض کے واپسی کی طلب پر اسے مقروض ٹھہرانے میں بھی لوگ کوئی کسر نہیں چھوڑتے.
3-مالدار مالدار تر ہوتے رہتا ہے،اور غریب غریب تر (نسلوں کی نسلیں قرض میں ڈوب جاتی ہیں).
عبادتین قبول نہیں ہوتی (مسجد مدرسہ میں چندے دینے سے یہ سو دی معاملات کے سبب حاصل کردہ مال پاک نہیں ہوتا اگر بلا بتائے دے اور اسے کہیں لگا دیا جائے تو انسان گنہگار بھی ہوگا.
4-مہنگائی بڑھتی ہے،بے روزگاری میں اضافہ ہوتا ہے.
اب آئیے ہم دیکھتے ہیں سود کہتے کسے ہیں ، سود کن کن اشیاء میں ہوتا ہے اور معاشرے میں اس کی موجودہ شکلیں کون کون سی ہیں ؟
معاشرے میں رائج سود کی مختلف شکلیں:
1-سودی قرض:چاہے بینک سے لیا جائے ، یا مہاجن سے چاہے اسے لینے کا مقصد دھوم دھام سے شادی کرنا ہو یا جدید دور کے حساب سے اچھی زندگی گزارنا یا سفر کے لئے چاہے پڑھائی کی تکمیل یا گھر کی خریداری کے غرض سے یا کارو بار چمکانے کیلئے یا پھر زیورات کی خریداری کے مقصد سے۔
غرضیکہ جس بھی غرض سے سو دی قرض لیا جائے وہ حرام ہی ہوگا۔
2-ہیوی ڈپازٹ:معاشرے میں سود کی ایک عام اور رائج شکل یہ بھی ہے کہ مکان مالک کو ایک موٹی رقم دیدیا جاتا ہے اور اس کے بدلے میں اس کا گھر بلا معاوضہ استعمال کرتا ہے،یا اگر کرایہ متعین بھی کیا جائے تو رائج کرائے سے بالکل کم مقدار میں بالکل معمولی ہوتا ہے جو کہ کسی واسطہ اور خیر کوتاہی کے سبب نہیں بلکہ اس قرض کے سبب ہوتا ہے اور قاعدہ ہے کہ ہر وہ قرض جو نفع لائے وہ سود ہوگا۔
كل قرض جر منفعة فهو ربا
: 3-سونے اور چاندی کے زیورات کا قسطوں پر خریدنا بھی آج کل معاشرے میں رائج ہے نئے ماڈل کے نام پر لوگ دیوانہ وار خریداری کرتے ہیں،کیونکہ یہ خدمت قسط میں بھی میسر ہوتی ہے، یا پرانے کے بدلے نیا زیور خریدا جاتاہے جس میں اول تو یہ کہ پرانے کے نام پر میل اور ٹانکے کے نام پر کچھ کم اس کی اہمیت کو گھٹا دیا جاتا ہے یہی نہیں بلکہ تجربہ کار لوگوں کے مطابق اگر تین مرتبہ کوئی سونار کے پاس چلا جائے تو اسے گھر سے دینا پڑے گا۔
ثانیا یہ کہ پرانے زیورات کا رکھ لینا بھی يدا بيد کی شرط سے عاری ہوتی ہے،اور یہ سو دی معاملہ ہو جاتا ہے۔
4-چینج یا بندھا لیتے وقت بھی لوگ برابر سرابر اور ہاتھوں ہاتھ کی رعایت نہیں کرتے ، معلوم ہو نا چاہیے کہ اگر جنس(قیمت)اور نوعیت(روپیہ/ڈالر/ریال)میں موافقت کی صورت میں مذکورہ دونوں شروط کی رعایت ضروری ہوگی،مثال کے طور پر کوئی ایک دے کر سو سو کا چینج مانگے تو اسے ایک ہی ہزار دینا ہوگا اگر کوئی اس کے بدلے ساڑھے نو سو ہی دے تو یہ معاملہ سو دی ہوگا اسی طرح کوئی دوہزار کے نوٹ لے بدلے دو ہزار پچاس کا مطالبہ کرے تو بھی معاملہ درست نہ ہوگا۔لیکن اگر نوعیت میں اختلاف ہو جیسے ریال کے بدلے روپیہ لیتے وقت سواء بسواء کی شرط ختم ہوجائے گی۔
5-بسی کے حصے کو جلدی کچھ بڑھا کر بیچنا مثلا کوئی شریک کار بسی کے حصے کا صرورتمند تو ہو مگر نام کسی اور کا نکل جائے اب ضرورتمند خود کہے یا سامنے والا کہ میں تمہیں اسے حصے کو چھ ماہ کی مدت کیلئے ایک لاکھ بیس ہزار پر فروخت کرتا ہوں یہ صورت حرام ہے ، ہاں بسی کی اصل صورت جائز ہے اس میں کوئی شبہ نہیں وہ خیر اور بھلائی کے کام ایک دوسرے کا تعاون ہے بلکہ یہ سود سے آزاد معاشرے کی بنیاد بھی ہوسکتی ہے۔بسی کی معروف صورت یہ ہے کہ کئی لوگ ہر ماہ ایک متعین رقم جمع کریں اور قرعہ کے ذریعہ ہر ماہ کسی کو دیدیں،اسی طرح ہر ماہ الگ الگ شخص کی باری آئے،شریک لوگ آخری شخص کی باری آنے تک متعین رقم بھرتے رہیں،اس میں لوگوں کا پیسہ بلا کمی و نقص ان کو ملتا ہے اور رقم چھوٹی ہونے کے سبب کوئی دشواری بھی نہیں ہوتی اور ضرورتمند کا کام بھی چل جاتا ہے۔اس صورت میں ذمہ دار کی تنخواہ مقرر کی جاسکتی ہے مگر رقم کا بینک میں جمع کر اس کا فائدہ کھانا بھی سود ہی ہوگا(کسی سوسائٹی کے خازن کیلئے بھی یہی بات کہی چائے گی کیونکہ سود سود ہوتا ہے چاہے اپنا پیشہ ہو یا سوسائٹی کا)۔
7-قسطوں پر گاڑی خریدنا اگر ڈائرکٹ شوروم سے معاملہ طے ہو تو قسط پر کوئی حرج نہیں لیکن بینک کی مداخلت کے سبب اور شوروم کا بینک سے پیسے لے لینا اور پھر بینک کا خریدار سے قسطوں میں رقم وصول کرنا،یہی حرمت کا سبب ہے۔
8-انسورنش(تأمینات):سود بھی اور جوا بھی ؛کبھی صاحب معاملہ تو کبھی کمپنی کا نفع یا نقصان ہوتا ہے
اس میں اللہ پر ے تو کل کہ کمزوری بھی نظر آتی ہے،کیونکہ بینک یا انشورنس کمپنیاں آکر آدمی کو ورغلاتی ہیں کہ زندگی کابھروسہ نہیں بچوں کا کون سہارا ہوگا اب انسان بچوں کی محبت میں یہ کام کرتا ہے اور وہ بھول جاتا ہے کہ ہمارا اور بچوں کا مالک صرف اللہ تعالی ہے.
تنبیہ:گاڑیوں کا انشورنس چونکہ ضروری ہوتا ہے بغیر اس کے سڑک پر نہیں اتاری جا سکتی تو یہ مجبوری شمار ہوگی والضرورة تقدر بقدرها.
9-سودی کاروبار کے لئے دوکان و مکان کرایہ پر دینا بھی آج کل بالکل عام ہے حالانکہ ان معاملات میں گواہی جیسی ذرا سی مشارکت بھی باعث لعنت ہے دوکان و مکان کرایہ پر دینا تو اسے بڑھاوا دینا ہے.
10-سو دی بینکوں میں نوکری یا سو دی قرض کے وصولی کے لئے پارٹ ٹائم جوب کرنا بھی حرام ہے.
11-پی اف(PF) کی رقم :کسی سرکاری سیکٹر میں کام کرنے والوں کو سبکدوشی کے بعد جو رقم دی جاتی ہے اسے پی اف کہا جاتا ہے اصل میں اس رقم میں تین طرح کے پیسے شامل ہوتے ہیں:
1- تنخواہ سے ماہانہ کٹنے والی مخصوص رقم.
2-کمپنی کی طرف سے سبکدوشی کا ہدیہ.
3-تنخواہ سے کٹنے والی رقم کے بینک میں جمع کرنے پر حاصل شدہ سو دی شرح.
پہلے کے دو انسان کا حق ہے مگر تیسرا سود ہوگا اسے اسی کے مصرف میں خرچ کیا جائے گا.
12-آج کل بینکوں میں بچی یا بچے کی شادی دھوم دھام سے اور ہائی فائی طریقے سے کرنے کیلئے اس کی ولادت کے وقت ہی کچھ پیسے جمع کردیئے جاتے ہیں،جو بڑھتا رہتا ہے اور اس سے شادی کے انتظامات کئے جاتے ہیں یہ بھی سود ہے ایسا کرنے والے بھی لعنت کے مستحق ہیں .
13-خواتین کے پاس موجودہ رقم بینک میں رکھ دیا جاتا ہے تاکہ خرچ نہ ہو اس میں میں جو سود آتا ہے حرام ہی ہے.
14-بیع عینہ یعنی:کوئی پریشان شخص دوکاندار کے پاس آئے اور کہے کہ مجھے ایک ہزار روپیوں کی ضرورت ہے اور قرض طلب کرے مگر دوکاندار قرض تو نہ دے مگر کوئی چیز اس سے ایک مدت کیلئے 1200 میں ادھار خریدنے بات کہے اور پھر اس سے وہی چیز 1000میں نقد خرید لے...کان چاہے یہاں سے پکڑیں یا وہاں سے یہ بھی سود ہی ہے.
15-کمپنیوں کے شیئر کی خریداری بھی سود میں داخل ہوگی کیونکہ کمپنی والے ظاہر تو کرتے ہیں کہ ہماری تجارت حلال ہے مگر س میں حرم بھی ہوتا ہے، وہ اس طرح کہ آدھی مالیت بینک میں رکھ دیتے ہیں تاکہ اگر خسارہ ہو تو یہ کام آئے لیکن اگر کمپنی کے اصول مضاربت کی شروط پر پورا اترتے ہیں تو ان کے ساتھ معاملہ درست ہوگا (بصورت دیگر نہیں)
16-لائٹ بل کی تاخیر سے ادائیگی پر وصول کی جانے والی رقم بھی سود ہے .
17-شوروم سے سونا بیس % پر خریدنا اور نفع دیکھ کر بیچنے کا رواج آج کے ایلکٹرانک معاشرے میں بالکل عام ہے،جسے لوگ آن لائن بزنس کا نام دیتے ہیں اس میں ہوتا یہ ہے کہ کمپنی سے سونے کو 20% پر اپنے نام کرلیا جاتا ہے ویسے سونا اپنی جگہ سے ہلتا تک نہیں بس نام لکھ دیا جاتا ہے اب انسان مخصوص وقت میں بیچ لیا تو ٹھیک ورنہ پھر کمپنی کو واپس ہوجاتا ہے یہ ایک طرح سے جوا ہے اور سو نے کی بیع و شراء میں ہاتھوں کی شرط پائی جاتی ہے جو اس میں نہیں ہے.
18- لکی ڈرا اسکیمیں یا اس طرح کی دوسری نوعیت جو معاشرے میں عام ہیں وہ بھی حرام اور ناجائز ہے وہ بھی جوا اور سود کے مجموعے ہیں .
19-دوسرے کا پیسہ لے کر کاروبار کرنا اور اسے ہر ماہ مخصوص رقم ادا کرنا بھی سود ہے ہاں اگر نفع و نقصان میں نسبت طے کرلی جائے تو درست ہوگا .
20-قرض کے بدلے مرہون چیز سے استفادہ بھی سود ہی ہے.
الا یہ کہ مرہون کوئی جانور ہو تو اس کے خرچ کے بقدر استفادہ کرنے میں کوئی حرج نہیں .
21-موبائل بیلنس لون لینا بھی سود ہے
22-چیک کی تاریخ سے پہلے مبلغ حاصل کرنے کے لئے اضافی فیس بھی سود ہے.
23- کریڈٹ کارڈ سے پیسے لینا بھی سود ہی ہے اگر چہ قرض شرح سود سے قبل لوٹا دیں کیونکہ پہلے عقد پر دستخط سو دی معاملے پر ہوچکا ہے.
24- قرض خواہ کو ہدیہ دینا یا اس کا قبول کرنا بھی سود ہے
25-سیونگ بینک اکاؤنٹ میں آنے والا سہ ماہی اماونٹ بھی سود ہے.
تعليقات
إرسال تعليق