نماز فجر کے فضائل اور اسكى پابندى كا طريقہ
ممتازعالم نسىم أحمد (قصىم,سعودى عرب)
نماز اسلام کے پانچ بنىادى ارکان میں سے دوسرا عظىم الشان رکن ہے, ىہ نبی اکرم صلى الله علىہ وسلم کی آخری وصیت ہے،الله تعالى نےاسے برائیوں اور فحاشىوں سے ڈهال اور واقع ہو چكے گناہوں کےلئے کفارہ قرار دىا ہے،اس کے بغیر انسان کے اندر کسی بهى بهلائى کی امید نہیں کی جاسکتی،زندگی کے اتار چڑھاؤ اور پریشانیوں میں نماز كے ذرىعہ استعانت کا حکم تو دیا ہى گیا ہے،نىز کسی پریشانی سے سامنا ہونے پر آپ صلى الله علىہ وسلم سے نماز پڑھنا بهى ثابت ہے،ىہ مسلمانوں پر وقت کی پابندی کے ساتھ باجماعت واجب ہے،جو مومن کا شعار,آنكهوں كى ٹھنڈك اور اسکے دل کا سکون ہے,الله اور بندے كے درميان كا ىہ واسطہ اسلام اور کفر وشرک كے مابين وه حد فاصل ہےجس کے عمداً ترک سے انسان دائرہ اسلام سےہی خارج ہوجاتا ہے, ىہی وہ شئی ہے جس پر توحید کے بعد تمام أعمال کے صحت و رد کا مدار ہے،بروز قىامت سب سےپہلے اسى سے متعلق باز پرس ہو گى, یوں تو تمام نمازیں اہم اور قرب الہی كے حصول كا ذرىعہ ہیں اورانکی حفاظت پر رضاء الہی اور جنت کا وعدہ كيا گیا ہے,مگر نماز فجر كا اپنا الگ ہی مقام ہے, نماز فجر مسلمانوں کی اصل طاقت اور دنیا و آخرت میں انکے فلاح و کامرانی کا ضامن ہے, نماز فجر ہى تمام ترسعادتوں کی بنیاد ہے, مگر افسوس صد افسوس کہ آج ہم مسلمانوں کی اکثریت اس سے متعلق حد درجہ غفلت کا شکار ہے!,جس كے سبب طرح طرح کی ذہنی و جسمانى پریشانیاں،داخلی و خارجی انفشار،ذلت وخواری,دشمنوں کی ریشہ دوانیاں اور دىگر مسائل زمانہ ہمارا مقدر بن گئى ہیں،جن كا واحد حل الله كى طرف رجوع ہوكر كتاب وسنت كى روشنى میں زندگى گذارنے كا عہد كرتےہوئے اس كے مطابق بود و باش اختىاركركے واجبات كى ادائىگى اور محرمات سے اجتناب میں ہى ہے, متعدد نصوص میں نماز فجر کی اہمیت اور فضیلت کی وضاحت کے ساتھ ساتھ اس کی باجماعت ادائیگی اور اہتمام پر کافی زور دیا گیا ہے،اس میں سستی پر سخت ترین سزا بھی وارد ہے،مگر پھربهى اس میں نمازیوں کی تعداد انگلیوں پر شمار کی جاسکتی ہے،آئیے ہم سطور ذیل میں اس سے متعلق چند فضائل اور ثمرات اور اس كى پابندى كے لئے معاون أسباب پر طائرانہ نظر ڈالیں:
(1) نماز فجر كى ادائیگی جنت میں داخلے اورجہنم سے نجات كا سبب ہے,جىسا كہ حضرت أبو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(من صلى البر دين دخل الجنة)ترجمہ:جو شخص دو ٹھنڈی نمازیں(فجر وعصر) ادا کرے وہ جنت میں داخل ہوگا(متفق علىہ).اور حضرت ابو زہیر عمارہ بن رویبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(لن يلج النار أحد صلى قبل طلوع الشمس وقبل غروبها)ترجمہ:سورج کے طلوع اور غروب سے قبل نماز پڑھنے والا ہرگز جہنم میں نہیں جائے گا(مسلم شریف).
(2)نماز فجرفرشتوں کی حاضرى کا وقت ہوتا ہے,إرشاد بارى تعالى ہے:﴿أقم الصلاة لدلوك الشمس إلى غسق الليل و قرآن الفجر إن قرآن الفجر كان مشهوداً﴾(الإسراء :79),اورصحيح بخارى ميں حضرت أبوہرىره رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى الله علىہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"يتعاقبون فيكم ملائكة بالليل وملائكة بالنهار ويجتمعون في صلاة الفجر وصلاة العصر ثم يعرج الذين باتوا فيكم فيسألهم وهو أعلم بهم كيف تركتم عبادي؟,فيقولون تركناهم وهم يصلون وأتيناهم وهم يصلون". ترجمہ: تمہارے پاس رات اور دن کے فرشتے آتے جاتے رہتے ہیں اور وہ فجر و عصر کی نمازوں میں جمع ہوتے ہیں،پھر رات کے فرشتے آسمان کی طرف جاتے ہیں،اللہ تعالی ان سے پوچھتا ہے -حالانکہ وہ ان سے بخوبی واقف ہے-تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا ہے؟فرشتے جواب دیتے ہیں کہ جب ہم ان کے پاس سے آئے وہ نماز پڑھ رہے تھے اور جب گئے تو بھی نماز ہی کی حالت میں تھے.
(3)نماز فجر کی ادائیگی خوش مزاجى اور بدن كے نشاط و چستی کا باعث ہے,متفق عليہ روايت میں حضرت أبوہرىره رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى الله علىہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "يعقد الشّيطان على قافية رأس أحدكم إذا هو نام ثلاثَ عُقَدٍ، يضرب كل عقدة مكانها: عليك ليل طويل فارقُدْ، فإن استيقظ فذكر الله انحلّت عقدة، فإن توضأ انحلّت عقدة، فإن صلّى انحلّت عُقَدُه كلها، فأصبح نشيطًا طيب النفس، وإلا أصبح خبيث النفس كسلان". ترجمہ: شیطان تمہارے سر پہ سوتے وقت تین گرہیں لگاکر ہر گرہ کی جگہ مار کرکے سلانے کی کوشش کرتاہے ،اگربنده بىدار ہو کر اللہ کا ذکر کرتا ہے تو اسکی ایک گرہ کھل جاتی ہے،جب وضو کرتاہے تو دوسری گرہ کھل جاتی ہے اور نماز پڑھتے ہی تیسری گرہ بھی کھل جاتی ہے،پھر انسان خوش مزاج اور چست پھرت ہوکر صبح کرتا ہے و رنہ بد مزاج اور سست و کاہل رہ جاتا ہے.
(4)نماز فجر كى ادائیگی نفاق سے براءت كى علامت ہے,حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(إن أثقل صلاة على المنافقين صلاة العشاء و صلاة الفجر،ولو يعلمون ما فيهما لاتوهما ولو حبوا،ولقد هممت أن آمر بالصلاة فتقام ،ثم آمر رجلا فيصلي بالناس،ثم أنطلق معي برجال معهم حزم من حطب إلى قوم لا يشهدون الصلاة فأعرف عليهم بيوتهم بالنار)(صحيح مسلم)،ترجمہ:منافقوں پر سب سے بھاری نماز عشاء اور فجر کی نمازیں ہیں,اگر وہ ان کی فضیلت کو جان لیں تو ضرور جماعت میں شریک ہو کر ان کی ادائیگی کریں اگر چہ انھیں اس کی خاطر گھٹنوں کے بل گھسٹتے ہوئے ہی کیوں نہ آنا پڑے... اسى طرح جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے فجر اور عشاء كےسلسلے سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتها کہ:"لا يشهدهما منافق"(مسند أحمد:20087), اور حضرت أبوقتادة رضی اللہ عنہ كہا كرتے تهے:ماسهرالليل منافق(الزهدلابن مبارك1/31) .
(5) نماز فجر باجماعت ادا کرنے والا اللہ کى پناه میں ہوتا ہے,حضرت جندب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(من صلى صلاة الصبح في جماعة فهو في ذمة الله) (المسند المستخرج على صحيح الإمام مسلم:1467)،ترجمہ: نمازفجر باجماعت ادا کرنے والا اللہ کى پناه میں ہوتا ہے.
(6)نماز عشاء اور فجر کی باجماعت ادائیگی رات بھر قیام کے مانند ہے،حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا:(من صلى العشاء في جماعة فكأنما قام نصف الليل و من صلى الصبح في جماعة فكأنما صلى الليل كله)(صحیح مسلم),ترجمہ:جس نے عشاء نے نماز جماعت سے پڑھی تو گویا آدھی رات تک قیام کرتا رہا اور جس نے فجر کی نماز باجماعت ادا کی وہ ایسے ہی ہے گویا کہ اس نے پوری رات قیام میں گذارى.
(7)نماز فجر کیلئے مسجد جانے والوں کی خاطربروز قیامت نور کی بشارت ہےجامع ترمذى اورسنن أبى داودمىں حضرت بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے مروی حديث (جسے محدث زمان علامہ البانی نے صحیح قرار دیا ہے)میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كا فرمان ہے:بشر المشائين في الظلم إلى المساجد بالنور التام يوم القيامة,ترجمہ:تاریکی کے وقت(بکثرت) مسجد جانے والوں کو قیامت کے دن مکمل نور کی بشارت دیدو.
(8) نماز فجر كى ادائیگی كرنے والوں کا نام اللہ کے مہمانوں میں لکھا جاتاہے، حضرت أبو أمامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:((مَنْ تَوَضَّأَ , ثُمَّ أَتَى الْمَسْجِدَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ صَلاةِ الْفَجْرِ,ثُمَّ جَلَسَ حَتَّى يُصَلِّيَ الْفَجْرَ،كُتِبَتْ صَلاتُهُ يَوْمَئِذٍ فِي صَلاةِ الأَبْرَارِ،وَكُتِبَ فِي وَفْدِ الرَّحْمَنِ)). ترجمہ:جو وضو کرکے مسجد جائے اور نماز فجر سے پہلے دو رکعت ادا کرکے،نماز فجر کی ادائیگی تک بیٹھا رہے،اس کے اس روز کی نماز نیک لوگوں کی نماز میں لکھی جاتی ہے،اور اس کا نام اللہ کے مہمانوں میں لکھ دیا جاتا ہے. (امام طبرانى نے اسے بسند حسن نقل کیا ہے،علامہ البانی نے بھی اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے.).
(9)نماز فجر كى ادائیگی دىدار الہى كا باعث ہے, حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:(كنا عند النبي صلى الله عليه وسلم فنظر إلى القمر ليلة يعني البدر فقال إنكم سترون ربكم كما ترون هذا القمر لا تضامون في رؤيته فإن استطعتم أن لا تغلبوا على صلاة قبل طلوع الشمس وقبل غروبها فافعلوا ثم قرأ وسبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس وقبل الغروب),(صحىح بخارى).ترجمہ: ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے کہ آپ نے ایک رات یعنی چودہویں رات کو چاند کی طرف دیکھا اور فرمایا:بے شک تم اپنے رب کو دیکھو گے جیسے اس چاند کو بلا کسی آڑ کے واضح طور پر دیکھتے ہو لہذا اگر تم سے ہوسکے تو سورج کے نکلنے اور ڈوبنے سے پہلے کی نماز سے پیچھے نہ رہو پھر حضرت ابن جریر نے یہ آیت:(وسبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس وقبل الغروب)پڑھی.
(10) نماز فجر افصل ترىن نماز ہے،حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:( أَفْضَلُ الصَّلَوَاتِ عِنْدَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ صَلاةُ الصُّبْحِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فِي جَمَاعَة (ترجمہ: اللہ تعالی کے نزدیک سب سے افضل نماز جمعہ کے دن نماز فجر کا باجماعت ادا کرنا ہے.(اس حدیث کو امام بیہقی نے اپنی سنن میں صحیح سند کے ساتھ تخریج کیا ہے اور علامہ البانی نے بھی اس کو صحیح قراردیا ہے[صحیح الجامع:1119]).
(11) اللہ تعالی فجر کے وقت نماز کیلئے جانے والوں کے سبب فرشتوں پر فخر کرتا ہے،حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(عَجِبَ ربُّنا عزَّ وجلَّ من رجلين: رجلٌ ثار عن وطائه ولحافه من بين أهله وحِبه إلي صلاته ، فيقول ربنا أيا ملائكتي انظروا إلي عبدي ثار عن فراشه ووِطائه ومن بين حِبه وأهله إلي صلاته رغبةً فيما عندي وشفقة مما عندي...) ترجمہ:اللہ تعالی دو لوگوں سے خوش ہوتا ہے،ایک وہ شخص جو اپنے بستر اور لحاف کو چھوڑتے ہوئے اپنے اہل اور محبوب لوگوں سے الگ ہو کر نماز کیلئے جاتا ہے ، اس پر ہمارا رب کہتا ہے اے میرے فرشتوں میرے بندے کو دیکھو اپنے بستر اور لحاف کو ترک کرکے اپنے اہل اور محبوب لوگوں سے الگ ہوکر میرا بندہ میری رحمت کی امید لگائے اور مجھ سے ڈرتے ہوئے نماز کی ادائیگی کے لئے جارہا ہے.(اس حدیث کو امام احمد نے حسن سند سے نقل کیا ہے).
(12) نماز فجر کی سنت دنیا اور اس کی تمام چیزوں سے بہتر ہے،حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(ركعتا الفجر خير من الدنيا وما فيها)،ترجمہ:فجر کی دو رکعتین دنیا اور اس کی تمام چیزوں سے بہتر ہیں(صحیح مسلم).
(13)نماز فجر كا وقت با بركت ہے, صخر غامدى رضی اللہ عنہ سے مروى حدىث میں اس وقت شروع كئےگئے كام كى بركت كے لئے نبى صلی اللہ علیہ وسلم كى خصوصى دعاء ؛اللهم بارك لأمتي في بكورها(ترمذى, علامہ البانی نے اسے صحیح لغیرہ قرار دیا ہے .) وارد ہے.
(14) نماز فجر کی ادائیگی کرنے والے کو ہردن حج و عمرہ کے مکمل ثواب کے حصول کا موقع ملتا ہے، جىسا كہ ترمذی شریف میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں فرمان نبوى صلی اللہ علیہ وسلم ہے:(مَنْ صَلَّى الْغَدَاةَ فِي جَمَاعَةٍ ثُمَّ قَعَدَ يَذْكُرُ اللَّهَ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ كَانَتْ لَهُ كَأَجْرِ حَجَّةٍ وَعُمْرَةٍ , تَامَّةٍ تَامَّةٍ تَامَّةٍ),ترجمہ: جس نے صبح کی نماز باجماعت ادا کی پھر طلوع آفتاب تک بیٹھ کر اللہ کا ذکر کرتے رہا پھر دو رکعت نماز ادا کیا اس کے لئے مکمل مکمل مکمل حج اور عمرہ کا ثواب لکھا جاتا ہے... ان كے علاوه بهى نما زفجر سے متعلق مختلف فضائل وثمرات صحيح أحاديث میں وارد ہیں.
جبكہ نماز فجر كا اہتمام نہ كرنے والے مذکورہ فضائل سے محروم تو ہوتے ہی ہیں,نفاق كى مذموم صفت ان پر صادق آتى ہے, رسول رحمت كى غضب كے شكار ہوتے ہیں ,اپنى امت پر حد درجہ شفقت كے باوجود نماز فجر اور عشاء میں شرىك نہ ہونے والوں كے مساكن كو نذر آتش كرنے كا اراده آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے(صحىح مسلم),شیطان ان کے کان میں پیشاب کردىتا ہے,حضرت عبدالله بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كے حضور ايك شخص کا ذکر کیا گیا کہ:مَا زَالَ نَائِمًا حَتَّى أَصْبَحَ، مَا قَامَ إِلَى الصَّلاَةِ، فَقَالَ:((ذَاكَ رَجُلٌ بَالَ الشَّيْطَانُ فِي أُذُنِهِ))(بخارى ومسلم),اور وقت موت سے ہی سخت عذاب کی شروعات ہوجاتی ہے،نماز سے غفلت کی وجہ قبر میں ہونے والے عذاب کا تذکرہ حضرت سمرہ بن جندب tکی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خواب والی طویل حدیث میں ہے کہ آپ کا گذر ایسے شخص سے ہوا جو چت لٹاىا ہوا تھا اس کے قریب موجود دوسرا شخص اپنے ہاتھ میں لئے ہوئے بڑے پتھر کو اس کے سر پر گراتا جس سے اس کا سر کئی حصوں میں بكهر جاتا،وہ شخص دوبارہ اس پتھر کو اٹھاتا قبل اس کے کہ وہ پتھر پوری طرح اٹھائے اس کا سر پہلی حا لت پر آجاتا,دوبارہ پتھر مارا جاتا جس سے اسکی حالت پھر بگڑجاتی،،،اس کے بارے میں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال کیا توفرشتوں نے کہا کہ یہ بے نمازی ہے, جو فرض نمازوں سے غافل ہوكر سوىا رہتا تها!.
سطورذىل مىں آئىے ہم وه معاون أسباب ملاحظہ فرمائىں جن پر عمل پیرا ہوکر نماز فجر کی پابندی آسان ہوسکتی ہے؛
پہلا سبب:سونے سے پہلے نماز فجر کیلئے اٹھنے کی سچی نیت اور پختہ ارادہ کرنا,دوسرا سبب:جلدی سونا اور رات کو بلا وجہ جاگنے سے پرہیز کرنا,تیسراسبب:نماز فجر میں اٹھنے کیلئے سچے دل سے اللہ سے دعا کرنا,چوتھا سبب:سونے سے پہلے وضو اور دعاؤں کا اہتمام کرنا.پانچواںسبب:فجر کی نماز سے غفلت کو منافقین کی صفت جاننا.چھٹاسبب: برائیوں سے دور رہنا،کیونکہ معصىت ہى تمام تر بلاؤں کا سبب ہوتی ہے.ساتواںسبب: نماز فجر کی ادائیگی پر وارد اجروثواب اور چھوڑنے پر عذاب وعقاب کا شعور دل میں بیدار رکھنا.آٹھواں سبب: جاگنے کیلئے گھڑی،موبائل،کمپیوٹر یا کسی اور آلے پر الارم سیٹ کرنا،یا کسی ساتھی سے فون کركے بيدار كرنے کی درخواست کرنا.نواںسبب: دوسری نمازوں کااہتمام انسان کے اندر نماز فجر کیلئے اٹھنے کا شوق پیدا کرتی ہیں.دسواں سبب: قیلولہ کرنا کیوں کہ اس سے جسم کو آرام ملتاہے اور فجر میں اٹھنے کیلئے چستی حاصل ہوتی ہے.گیارہواںسبب: نفس سے مجاہدہ کرنا اور اسے فجر کے وقت اٹھنے کی پریشانی پر صبر کا عادی بنانا اسلئے کہ عادت اور نماز فجر سے لگاؤ ہوجانے پر ساری تکلیفین آسان ہو جاتی ہیں.
اللہ تعالی ہمیں تمام نمازوں کے پابندی کی توفیق عطا کرے،خصوصاً نماز فجر کی پابندی ہمارے لئے آسان بنادے،اور ہمیں اپنے مقرب بندوں میں شامل کرے(آمین).
(1) نماز فجر كى ادائیگی جنت میں داخلے اورجہنم سے نجات كا سبب ہے,جىسا كہ حضرت أبو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(من صلى البر دين دخل الجنة)ترجمہ:جو شخص دو ٹھنڈی نمازیں(فجر وعصر) ادا کرے وہ جنت میں داخل ہوگا(متفق علىہ).اور حضرت ابو زہیر عمارہ بن رویبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(لن يلج النار أحد صلى قبل طلوع الشمس وقبل غروبها)ترجمہ:سورج کے طلوع اور غروب سے قبل نماز پڑھنے والا ہرگز جہنم میں نہیں جائے گا(مسلم شریف).
(2)نماز فجرفرشتوں کی حاضرى کا وقت ہوتا ہے,إرشاد بارى تعالى ہے:﴿أقم الصلاة لدلوك الشمس إلى غسق الليل و قرآن الفجر إن قرآن الفجر كان مشهوداً﴾(الإسراء :79),اورصحيح بخارى ميں حضرت أبوہرىره رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى الله علىہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"يتعاقبون فيكم ملائكة بالليل وملائكة بالنهار ويجتمعون في صلاة الفجر وصلاة العصر ثم يعرج الذين باتوا فيكم فيسألهم وهو أعلم بهم كيف تركتم عبادي؟,فيقولون تركناهم وهم يصلون وأتيناهم وهم يصلون". ترجمہ: تمہارے پاس رات اور دن کے فرشتے آتے جاتے رہتے ہیں اور وہ فجر و عصر کی نمازوں میں جمع ہوتے ہیں،پھر رات کے فرشتے آسمان کی طرف جاتے ہیں،اللہ تعالی ان سے پوچھتا ہے -حالانکہ وہ ان سے بخوبی واقف ہے-تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا ہے؟فرشتے جواب دیتے ہیں کہ جب ہم ان کے پاس سے آئے وہ نماز پڑھ رہے تھے اور جب گئے تو بھی نماز ہی کی حالت میں تھے.
(3)نماز فجر کی ادائیگی خوش مزاجى اور بدن كے نشاط و چستی کا باعث ہے,متفق عليہ روايت میں حضرت أبوہرىره رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى الله علىہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "يعقد الشّيطان على قافية رأس أحدكم إذا هو نام ثلاثَ عُقَدٍ، يضرب كل عقدة مكانها: عليك ليل طويل فارقُدْ، فإن استيقظ فذكر الله انحلّت عقدة، فإن توضأ انحلّت عقدة، فإن صلّى انحلّت عُقَدُه كلها، فأصبح نشيطًا طيب النفس، وإلا أصبح خبيث النفس كسلان". ترجمہ: شیطان تمہارے سر پہ سوتے وقت تین گرہیں لگاکر ہر گرہ کی جگہ مار کرکے سلانے کی کوشش کرتاہے ،اگربنده بىدار ہو کر اللہ کا ذکر کرتا ہے تو اسکی ایک گرہ کھل جاتی ہے،جب وضو کرتاہے تو دوسری گرہ کھل جاتی ہے اور نماز پڑھتے ہی تیسری گرہ بھی کھل جاتی ہے،پھر انسان خوش مزاج اور چست پھرت ہوکر صبح کرتا ہے و رنہ بد مزاج اور سست و کاہل رہ جاتا ہے.
(4)نماز فجر كى ادائیگی نفاق سے براءت كى علامت ہے,حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(إن أثقل صلاة على المنافقين صلاة العشاء و صلاة الفجر،ولو يعلمون ما فيهما لاتوهما ولو حبوا،ولقد هممت أن آمر بالصلاة فتقام ،ثم آمر رجلا فيصلي بالناس،ثم أنطلق معي برجال معهم حزم من حطب إلى قوم لا يشهدون الصلاة فأعرف عليهم بيوتهم بالنار)(صحيح مسلم)،ترجمہ:منافقوں پر سب سے بھاری نماز عشاء اور فجر کی نمازیں ہیں,اگر وہ ان کی فضیلت کو جان لیں تو ضرور جماعت میں شریک ہو کر ان کی ادائیگی کریں اگر چہ انھیں اس کی خاطر گھٹنوں کے بل گھسٹتے ہوئے ہی کیوں نہ آنا پڑے... اسى طرح جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے فجر اور عشاء كےسلسلے سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتها کہ:"لا يشهدهما منافق"(مسند أحمد:20087), اور حضرت أبوقتادة رضی اللہ عنہ كہا كرتے تهے:ماسهرالليل منافق(الزهدلابن مبارك1/31) .
(5) نماز فجر باجماعت ادا کرنے والا اللہ کى پناه میں ہوتا ہے,حضرت جندب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(من صلى صلاة الصبح في جماعة فهو في ذمة الله) (المسند المستخرج على صحيح الإمام مسلم:1467)،ترجمہ: نمازفجر باجماعت ادا کرنے والا اللہ کى پناه میں ہوتا ہے.
(6)نماز عشاء اور فجر کی باجماعت ادائیگی رات بھر قیام کے مانند ہے،حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا:(من صلى العشاء في جماعة فكأنما قام نصف الليل و من صلى الصبح في جماعة فكأنما صلى الليل كله)(صحیح مسلم),ترجمہ:جس نے عشاء نے نماز جماعت سے پڑھی تو گویا آدھی رات تک قیام کرتا رہا اور جس نے فجر کی نماز باجماعت ادا کی وہ ایسے ہی ہے گویا کہ اس نے پوری رات قیام میں گذارى.
(7)نماز فجر کیلئے مسجد جانے والوں کی خاطربروز قیامت نور کی بشارت ہےجامع ترمذى اورسنن أبى داودمىں حضرت بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے مروی حديث (جسے محدث زمان علامہ البانی نے صحیح قرار دیا ہے)میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كا فرمان ہے:بشر المشائين في الظلم إلى المساجد بالنور التام يوم القيامة,ترجمہ:تاریکی کے وقت(بکثرت) مسجد جانے والوں کو قیامت کے دن مکمل نور کی بشارت دیدو.
(8) نماز فجر كى ادائیگی كرنے والوں کا نام اللہ کے مہمانوں میں لکھا جاتاہے، حضرت أبو أمامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:((مَنْ تَوَضَّأَ , ثُمَّ أَتَى الْمَسْجِدَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ صَلاةِ الْفَجْرِ,ثُمَّ جَلَسَ حَتَّى يُصَلِّيَ الْفَجْرَ،كُتِبَتْ صَلاتُهُ يَوْمَئِذٍ فِي صَلاةِ الأَبْرَارِ،وَكُتِبَ فِي وَفْدِ الرَّحْمَنِ)). ترجمہ:جو وضو کرکے مسجد جائے اور نماز فجر سے پہلے دو رکعت ادا کرکے،نماز فجر کی ادائیگی تک بیٹھا رہے،اس کے اس روز کی نماز نیک لوگوں کی نماز میں لکھی جاتی ہے،اور اس کا نام اللہ کے مہمانوں میں لکھ دیا جاتا ہے. (امام طبرانى نے اسے بسند حسن نقل کیا ہے،علامہ البانی نے بھی اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے.).
(9)نماز فجر كى ادائیگی دىدار الہى كا باعث ہے, حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:(كنا عند النبي صلى الله عليه وسلم فنظر إلى القمر ليلة يعني البدر فقال إنكم سترون ربكم كما ترون هذا القمر لا تضامون في رؤيته فإن استطعتم أن لا تغلبوا على صلاة قبل طلوع الشمس وقبل غروبها فافعلوا ثم قرأ وسبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس وقبل الغروب),(صحىح بخارى).ترجمہ: ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے کہ آپ نے ایک رات یعنی چودہویں رات کو چاند کی طرف دیکھا اور فرمایا:بے شک تم اپنے رب کو دیکھو گے جیسے اس چاند کو بلا کسی آڑ کے واضح طور پر دیکھتے ہو لہذا اگر تم سے ہوسکے تو سورج کے نکلنے اور ڈوبنے سے پہلے کی نماز سے پیچھے نہ رہو پھر حضرت ابن جریر نے یہ آیت:(وسبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس وقبل الغروب)پڑھی.
(10) نماز فجر افصل ترىن نماز ہے،حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:( أَفْضَلُ الصَّلَوَاتِ عِنْدَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ صَلاةُ الصُّبْحِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فِي جَمَاعَة (ترجمہ: اللہ تعالی کے نزدیک سب سے افضل نماز جمعہ کے دن نماز فجر کا باجماعت ادا کرنا ہے.(اس حدیث کو امام بیہقی نے اپنی سنن میں صحیح سند کے ساتھ تخریج کیا ہے اور علامہ البانی نے بھی اس کو صحیح قراردیا ہے[صحیح الجامع:1119]).
(11) اللہ تعالی فجر کے وقت نماز کیلئے جانے والوں کے سبب فرشتوں پر فخر کرتا ہے،حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(عَجِبَ ربُّنا عزَّ وجلَّ من رجلين: رجلٌ ثار عن وطائه ولحافه من بين أهله وحِبه إلي صلاته ، فيقول ربنا أيا ملائكتي انظروا إلي عبدي ثار عن فراشه ووِطائه ومن بين حِبه وأهله إلي صلاته رغبةً فيما عندي وشفقة مما عندي...) ترجمہ:اللہ تعالی دو لوگوں سے خوش ہوتا ہے،ایک وہ شخص جو اپنے بستر اور لحاف کو چھوڑتے ہوئے اپنے اہل اور محبوب لوگوں سے الگ ہو کر نماز کیلئے جاتا ہے ، اس پر ہمارا رب کہتا ہے اے میرے فرشتوں میرے بندے کو دیکھو اپنے بستر اور لحاف کو ترک کرکے اپنے اہل اور محبوب لوگوں سے الگ ہوکر میرا بندہ میری رحمت کی امید لگائے اور مجھ سے ڈرتے ہوئے نماز کی ادائیگی کے لئے جارہا ہے.(اس حدیث کو امام احمد نے حسن سند سے نقل کیا ہے).
(12) نماز فجر کی سنت دنیا اور اس کی تمام چیزوں سے بہتر ہے،حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(ركعتا الفجر خير من الدنيا وما فيها)،ترجمہ:فجر کی دو رکعتین دنیا اور اس کی تمام چیزوں سے بہتر ہیں(صحیح مسلم).
(13)نماز فجر كا وقت با بركت ہے, صخر غامدى رضی اللہ عنہ سے مروى حدىث میں اس وقت شروع كئےگئے كام كى بركت كے لئے نبى صلی اللہ علیہ وسلم كى خصوصى دعاء ؛اللهم بارك لأمتي في بكورها(ترمذى, علامہ البانی نے اسے صحیح لغیرہ قرار دیا ہے .) وارد ہے.
(14) نماز فجر کی ادائیگی کرنے والے کو ہردن حج و عمرہ کے مکمل ثواب کے حصول کا موقع ملتا ہے، جىسا كہ ترمذی شریف میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں فرمان نبوى صلی اللہ علیہ وسلم ہے:(مَنْ صَلَّى الْغَدَاةَ فِي جَمَاعَةٍ ثُمَّ قَعَدَ يَذْكُرُ اللَّهَ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ كَانَتْ لَهُ كَأَجْرِ حَجَّةٍ وَعُمْرَةٍ , تَامَّةٍ تَامَّةٍ تَامَّةٍ),ترجمہ: جس نے صبح کی نماز باجماعت ادا کی پھر طلوع آفتاب تک بیٹھ کر اللہ کا ذکر کرتے رہا پھر دو رکعت نماز ادا کیا اس کے لئے مکمل مکمل مکمل حج اور عمرہ کا ثواب لکھا جاتا ہے... ان كے علاوه بهى نما زفجر سے متعلق مختلف فضائل وثمرات صحيح أحاديث میں وارد ہیں.
جبكہ نماز فجر كا اہتمام نہ كرنے والے مذکورہ فضائل سے محروم تو ہوتے ہی ہیں,نفاق كى مذموم صفت ان پر صادق آتى ہے, رسول رحمت كى غضب كے شكار ہوتے ہیں ,اپنى امت پر حد درجہ شفقت كے باوجود نماز فجر اور عشاء میں شرىك نہ ہونے والوں كے مساكن كو نذر آتش كرنے كا اراده آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے(صحىح مسلم),شیطان ان کے کان میں پیشاب کردىتا ہے,حضرت عبدالله بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كے حضور ايك شخص کا ذکر کیا گیا کہ:مَا زَالَ نَائِمًا حَتَّى أَصْبَحَ، مَا قَامَ إِلَى الصَّلاَةِ، فَقَالَ:((ذَاكَ رَجُلٌ بَالَ الشَّيْطَانُ فِي أُذُنِهِ))(بخارى ومسلم),اور وقت موت سے ہی سخت عذاب کی شروعات ہوجاتی ہے،نماز سے غفلت کی وجہ قبر میں ہونے والے عذاب کا تذکرہ حضرت سمرہ بن جندب tکی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خواب والی طویل حدیث میں ہے کہ آپ کا گذر ایسے شخص سے ہوا جو چت لٹاىا ہوا تھا اس کے قریب موجود دوسرا شخص اپنے ہاتھ میں لئے ہوئے بڑے پتھر کو اس کے سر پر گراتا جس سے اس کا سر کئی حصوں میں بكهر جاتا،وہ شخص دوبارہ اس پتھر کو اٹھاتا قبل اس کے کہ وہ پتھر پوری طرح اٹھائے اس کا سر پہلی حا لت پر آجاتا,دوبارہ پتھر مارا جاتا جس سے اسکی حالت پھر بگڑجاتی،،،اس کے بارے میں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال کیا توفرشتوں نے کہا کہ یہ بے نمازی ہے, جو فرض نمازوں سے غافل ہوكر سوىا رہتا تها!.
سطورذىل مىں آئىے ہم وه معاون أسباب ملاحظہ فرمائىں جن پر عمل پیرا ہوکر نماز فجر کی پابندی آسان ہوسکتی ہے؛
پہلا سبب:سونے سے پہلے نماز فجر کیلئے اٹھنے کی سچی نیت اور پختہ ارادہ کرنا,دوسرا سبب:جلدی سونا اور رات کو بلا وجہ جاگنے سے پرہیز کرنا,تیسراسبب:نماز فجر میں اٹھنے کیلئے سچے دل سے اللہ سے دعا کرنا,چوتھا سبب:سونے سے پہلے وضو اور دعاؤں کا اہتمام کرنا.پانچواںسبب:فجر کی نماز سے غفلت کو منافقین کی صفت جاننا.چھٹاسبب: برائیوں سے دور رہنا،کیونکہ معصىت ہى تمام تر بلاؤں کا سبب ہوتی ہے.ساتواںسبب: نماز فجر کی ادائیگی پر وارد اجروثواب اور چھوڑنے پر عذاب وعقاب کا شعور دل میں بیدار رکھنا.آٹھواں سبب: جاگنے کیلئے گھڑی،موبائل،کمپیوٹر یا کسی اور آلے پر الارم سیٹ کرنا،یا کسی ساتھی سے فون کركے بيدار كرنے کی درخواست کرنا.نواںسبب: دوسری نمازوں کااہتمام انسان کے اندر نماز فجر کیلئے اٹھنے کا شوق پیدا کرتی ہیں.دسواں سبب: قیلولہ کرنا کیوں کہ اس سے جسم کو آرام ملتاہے اور فجر میں اٹھنے کیلئے چستی حاصل ہوتی ہے.گیارہواںسبب: نفس سے مجاہدہ کرنا اور اسے فجر کے وقت اٹھنے کی پریشانی پر صبر کا عادی بنانا اسلئے کہ عادت اور نماز فجر سے لگاؤ ہوجانے پر ساری تکلیفین آسان ہو جاتی ہیں.
اللہ تعالی ہمیں تمام نمازوں کے پابندی کی توفیق عطا کرے،خصوصاً نماز فجر کی پابندی ہمارے لئے آسان بنادے،اور ہمیں اپنے مقرب بندوں میں شامل کرے(آمین).
تعليقات
إرسال تعليق