ماہ شعبان سے متعلق 32 فوائد
تاليف:
شيخ صالح المنجد حفظہ الله
اردوترجمہ: أبوعبدالله ممتاز النوري
تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے ہیں اور درود و سلام ہوں
اللہ کے رسول جناب محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) پر۔
یہ ماہ شعبان سے متعلق خلاصے کا مجموعہ ہے اللہ تعالی سے سے دعا گو
ہوں کہ اللہ رب العالمین دین اسے اور اس جیسی دیگر کتابوں کو لوگوں کے لئے لیے
مفید بنائے اور اور اس کی تیاری اور نشر و اشاعت میں شرکتاور تعاون کرنے والوں کو
جزائے خیر عطا فرمائے۔
1-ماہ شعبان ہجری کیلنڈر کا کا آٹھواں مہینہ ہے جو رجب اور رمضان
کے درمیان آتا ہے۔اس کا یہ نام اس لئے رکھا گیا گیا کیونکہ عرب کے لوگ اس مہینے
میں پانی کی تلاش میں نکلا کرتے تھے۔اور یہ بھی کہا گیا ہے کیونکہ عرب کے قبائل اس
میں جنگوں کے لیے نکلا کرتے تھے۔یہ بھی کہا گیا ہےکہ یہ شعب سے سے مشتق ہے ہے جس
کے معنی ظاہر ہونے کے ہیں چونکہ یہ ماہ رجب اور رمضان کے درمیان ظاہر ہوتا ہے۔شعبان
کی جمع شعابین اور شعبانات آتی ہے۔
2-ماہ شعبان ایک مبارک مہینہ ہے ہے جس
میں لوگ رمضان اور رجب کے درمیان غفلت کے شکار ہوتے ہیں اس مہینے میں کثرت سے سے
روزے کا اہتمام کرنا چاہیے۔
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ میں
نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ کو شعبان کی طرح دیگر مہینوں
میں روزہ رکھتے ہوئے نہیں دیکھتا ہوں ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
:(( یہ ایسا مہینہ ہے جس میں لوگ رجب اور رمضان کے درمیان غفلت کا شکار ہو جاتے ہیں
ہیں اور اس مہینے میں اعمال اللہ رب العالمین کے پاس اٹھائے جاتے ہیں لہذا مجھے یہ
پسند ہے کہ میرے اعمال اس حالت میں اٹھایا جائے کہ میں روزے سے ہوں۔
3-نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسلم شعبان
میں جس قدر نفلی روزے رکھتے تھے دوسرے مہینوں میں اتنے روزے نہیں رکھتے تھے۔آپ صلی
اللہ علیہ وسلم شعبان کا بیشتر حصہ روزہ رکھا کرتے تھے۔
جیسا کہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کا فرمان ہے کہ
میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو رمضان کے علاوہ کسی اور مہینے کا مکمل
روزہ رکھتے ہوئے نہیں دیکھا اور میں نے شعبان سے زیادہ کسی اور مہینے میں روزہ
رکھتے ہوئے بھی نہیں پایا
ایک دوسری روایت میں ہے
کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پورا شعبان روزہ رکھا کرتے تھے کچھ دنوں کے علاوہ وہ
شعبان کے سارے دن روزہ رکھتے تھے۔
4-اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم
لگاتار دو مہینے میں روزہ نہیں رکھتے تھے سوائے شعبان اور رمضان کے،آپ صلی اللہ
علیہ وسلم شعبان کے اکثر دن روزے رکھا کرتے تھے اور اسے رمضان سے سے ملا دیا کرتے
تھے جیسا کہ ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کہتی ہیں ہیں کہ میں نے
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو لگاتار دو مہینے روزہ رکھتے ہوئے نہیں دیکھا سوائے
شعبان اور رمضان کے
5-ماہ شعبان کے روزوں سے لوگ غافل ہوتے ہیں کیونکہ کہ اس سے پہلے
ایک حرمت والا مہینہ گزرا ہوتا ہے جو کہ رجب کا مہینہ ہے اور حرمت والے مہینوں کا
روزہ رکھنا بلا کسی دن کے خاص ہونے کا عقیدہ رکھنے مستحب ہے،اور اس کے بعد رمضان
کا مبارک مہینہ آتا ہے اس لیے لوگ ان دونوں مہینوں کے سبب شعبان سے غفلت کا شکار
ہو جاتے ہیں لہذا ماہ شعبان میں روزے کا اہتمام کر نا مستحب ہے۔
6-نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان : "یہ ایسا مہینہ ہے کہ
لوگ لوگ رجب اور رمضان کے درمیان اس سے غفلت کے شکار ہوتے ہیں اس میں ایک باریک
اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ ہمیں لوگوں کی غفلت کے اوقات کو اللہ کی اطاعت میں
گزارنے کا اہتمام کرنا چاہیے ہے کیونکہ اللہ رب العالمین کو یہ عمل پسند ہے اسی
لیے سلف میں سے بعض لوگ مغرب اور عشاء کے درمیان نفل عبادت کیا کرتے تھے اور کہتے
تھے کہ یہ غفلت کی گھڑی ہے، اسی لیے رات کے وقت آخری گھڑی میں قیام کو بھی فضیلت
حاصل ہے کیوں کہ اس وقت بیشتر لوگ ذکر سے غافل ہوتے ہیں اور نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم کا فرمان ہے: اللہ تعالی اپنے بندوں سے سب سے زیادہ قریب رات کے آخری
پہر میں ہوتا ہے اگر آپ یہ استطاعت رکھیں کہ آپ اس گھڑی میں اللہ کا ذکر کر سکو تو
ایسا ضرور کریں
اس لئے برائی اور غفلت
کی جگہوں میں اللہ تعالی کا ذکر کرنا مستحب ہو جاتا ہے جیسے بازار اور لغو باتوں
کی مجلسوں میں۔
7-غفلت کے وقت میں عمل کے فوائد:
ایک مسلمان سبھی لوگوں
کے غفلت کے اوقات کو اطاعت اور فرماں برداری کے کام کرتے ہوئے گذارتا ہے تو ایسی
صورت میں اس کا عمل پوشیدہ رہتا ہے اور نفلی عبادتوں کو پوشیدہ رکھنا قبولیت کےسب
سے زیادہ قریب ہوا کرتا ہے ہے کیوں کہ ایک مسلمان نیک عمل کو ظاہر کرتے ہوئے اپنے
آپ پر ریاکاری کا شائبہ آنے سے نہیں روک سکتا۔
8-ماہ شعبان کے روزے حرمت والے مہینوں کے روزوں سے افضل ہیں؛
کیونکہ ماہ شعبان رمضان کے ساتھ فرائض کے ساتھ سنن رواتب کے درجے کو ہوتا ہے،اور
وہ فضیلت میں فرائض سے ملحق ہوتا؛ اسی طرح جس طرح سنن رواتب نفلی نمازوں سے افضل
ہوتے ہیں اسی طرح رمضان سے پہلے اور بعد کے روزے اس سے دور کے روزوں سے سے افضل
ہوتے ہیں۔
9- آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان : "سب سے بہترین روزے
رمضان کے بعد اللہ کے مہینے محرم کے ہیں ہیں اور سب سے بہترین نماز رات کی نماز
ہے"
تو یہ مطلق نوافل پر محمول کیا جائے گا کیونکہ کہ مطلق نفلی روزوں
میں میں محرم کا روزہ سب سے افضل ہے پھر باقی حرمت والے مہینوں کے روزوں کی اہمیت
ہے اسی طرح جس طرح مطلق نفل نمازوں میں میں رات کی نماز سب سے افضل ہے۔
رہی بات شعبان کے روزوں کی تو یہ رمضان کے روزوں کے تابع اور اس سے
سے ملے ہوئے ہیں اسی طرح جس طرح شوال کے چھ روزے ہیں لہذا یہ مطلق نوافل سے بہتر
ہیں اسی طرح جس طرح فرض نمازوں اور ان کے راتبہ سنتوں کے بعد سب سے افضل نماز رات
کی نماز ہے یعنی فرض نمازوں سے پہلے اور بعدکی موکدہ سنتیں جمہور علماء کے نزدیک
رات کی نماز سے بہتر ہیں کیونکہ وہ فرائض سے ملحق ہوتی ہیں۔
10-شعبان سالانہ اعمال کے اللہ کے پاس اٹھائے جانے کا مہینہ ہے
جیسا کہ حدیث میں ہے کہ" یہ وہ مہینہ ہے جس میں اعمال اللہ رب العالمین کی
طرف اٹھائے جاتے ہیں لہذا میں یہ پسند کرتا ہوں ہو کہ میرے اعمال روزے کے حالت میں
اٹھائے جائیں" نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند کیا کہ آپ کے اعمال روزے
کی حالت میں اٹھائے جائیں کیونکہ کہ اس طرح عمل کے قبول ہونے اور درجات بلند ہونے
کا زیادہ امکان ہوتا ہے ہے لہذا مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ وہ اپنے نبی صلی اللہ
علیہ وسلم کے اس بارے میں میں تابعداری کریں کریں اور ماہ شعبان میں کثرت سے روزے
رکھا کریں۔
11-اعمال کے اٹھائے جانے اور اس کے اللہ رب العالمین پر پیش کئے
جانے کی تین شکلیں ہیں جیسا کہ شریعت کے نصوص دلالت کرتے ہیں:
پہلی شکل : یومیہ اعمال کی اللہ کے حضور پیشی (روزانہ اعمال کا
اٹھایا جانا) ہر دن میں دو مرتبہ اعمال اٹھائے جاتے ہیں ایک مرتبہ دن میں اور
دوسری مرتبہ رات میں جیسے کہ حدیث میں ہے: اللہ رب العالمین کی طرف رات کے عمل دن
کے عمل سے پہلے اٹھائے جاتے ہیں اور دن کے عمل رات کے عمل سے پہلے اٹھا جاتے ہیں۔
یعنی دن کا عمل دن کے آخری حصے میں اٹھایا جاتا ہے اور رات کا عمل
رات کے آخر ی حصےمیں اٹھایاجاتا ہے فرشتے رات کے اعمال کو لے کر دن کے ابتدائی حصے
میں چڑھتے ہیں اور دن کے اعمال کو لے کر رات کے آخری حصے میں میں رب تعالی کی
بارگاہ میں حاضری دیتے ہیں جیسا کہ حدیث میں ہے کہ: " تم میں رات اور دن کے
فرشتے آتے جاتے رہتے ہیں وہ نماز فجر اور نماز عصر میں اکٹھا ہوتے ہیں
لہذا جو اس وقت اطاعت اور فرمانبرداری کے کام میں رہا اس کے رزق
اور عمل میں برکت دی جاتی ہے۔
اسی لیے ضحاك رحمہ اللہ دن کے آخری وقت میں روتے تھے اور کہتے تھے
مجھے نہیں پتہ میرے عمل کا کون سا حصہ اللہ کی بارگاہ میں پہنچایا گیا۔
دوسری شکل: ہفتے وار اعمال کا اٹھایا جانا، ہفتے میں بھی اعمال دو
دن پیر اور جمعرات کو اٹھائے جاتے ہیں جیسا کہ حدیث میں ہے کہ لوگوں کے اعمال ہر
ہفتے دو مرتبہ اٹھائے جاتے ہیں پیر اور جمعرات کے دن پھر ہر مومن بندے کی مغفرت کی
جاتی ہے سوائے ایسے لوگ جن کے دل اپنے بھائی کے لئے کینہ ہو ان کے لئے کہا جاتا ہے
کہ انہیں اس وقت تک چھوڑ دو جب تک کہ وہ صلح اور رجوع نہیں کر لیتے
ابراهيم نخعي رحمہ اللہ جمعرات کے روز اپنی بیوی کے سامنے رویا
کرتے تھے اور وہ ان کے سامنے رویا کرتی تھیں اور کہتے تھے کہ ہمارے اعمال آج اللہ
رب العالمین پر پیش کیے جائیں گے
تیسری شکل: سالانہ اعمال کا اٹھایا جانا؛پورے سال کے اعمال ایک
ساتھ ماہ شعبان میں اٹھائے جاتے ہیں جیسا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان:
"اس ماہ میں میں اعمال اللہ رب العالمین کے پاس اٹھائے جاتے ہیں" دلالت
کرتا ہے
اور پھر موت کے بعد پوری زندگی کے اعمال اٹھائے جاتے ہیں یعنی جب
موت آجاتی ہے تب پوری زندگی کے عمل اٹھائے جاتے ہیں اورسبهي الله کے حضورپیش كئے
جاتے ہیں اور اس کا صحیفہ سمیٹ دیا جاتا ہے یہ ایک الگ عرض (پیشی) ہے۔
12-اور ہر عرض کی ایک حکمت ہے جس کو ہمارا رب سبحانہ و تعالی بہتر
جانتا ہے ہے اللہ رب العالمین کی طرف سے رسالت ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر
پہنچا دینا ہے اور ہم پر تسلیم کرنا ہے۔
13-ایک مسلمان کے لیے اعمال کے اٹھائے جانے اور اللہ رب العالمین
پر پیش کی جانے کے وقت نيكیوں میں میں کثرت مستحب ہے،لہذا مسلمان کو چاہئے کہ وہ
وہ پیر اور جمعرات کے روزے رکھے جيسا که پىارے رسول صلى اللہ علیہ وسلم کا طریقہ
کارتھا اور شعبان میں کثرت سے روزے رکھے اور نیک اعمال میں زیادتی کرے اس ماہ کے
دن اور رات میں اللہ رب العالمین کے پسندیدہ اعمال کرتے ہوئے اللہ کا قرب حاصل کرے
14-مسلمان کو یہ بھی غور کرنا چاہیے کہ اس مہینے میں اس کے تمام
اعمال اچھے اور برے سبھی اللہ رب العالمین پیش کی جائیں گے لہذا انسان کو چاہیے ہے
کہ وہ رب العالمین پر پیش کیے جانے کے لیے اپنے اعمال کو بہتر بنائے اور ایسے
اعمال کرے جو ثواب اور اجر کا باعث ہو اور برے انجام والے اعمال سے بچےاور ایسے
اعمال کریں جو اللہ رب العالمین قبول کریں اور اس سے بچے جو رد کردیا جائے -اللہ
رب العلمین کی پناہ-.
15-شعبان رمضان کے لیے مقدمے کے مانند ہے جو گویا رمضان کے روزوں
کی مشق کے مقام پر ہے لہذا ماه شعبان میں وہ اعمال مشروع ہونگے جو رمضان میں مشروع
ہونگے جیسے روزے اورتلاوت قرآن وغیرہ تاکہ رمضان میں كے استقبال کی تیاری ہو سکے
اور نفس نیک اعمال پر راضی ہو۔
لہذا ہمیں میں شعبان
میں اللہ کی اطاعت کےلئے جلدی کرنی چاہیے ہے تاکہ کہ رمضان کی تیاری ہو سکے اور
رمضان میں روزہ رکھنے پر مشقت کا سامنا نہ ہو بلکہ کہ شعبان میں روزہ رکھ کر روزے
کی مشق کر لے اور عادت بنا لے اور روزے کی مٹھاس انسان کے دل میں گھر کر جائے آئے
اور انسان رمضان کے روزے قوت اور نشاط کے ساتھ رکھے۔
16-بعض لوگ رمضان میں روزے قیام اور اور ختم قرآن کے مشکل ہونے کی
شکایت کرتے ہیں ہیں جس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ صرف اور صرف رمضان ہی میں روزہ
رکھتے ہیں رمضان ہی میں قیام کرتے ہیں تو ایسے لوگ لوگ ماہ شعبان میں رمضان کی
تیاری اور مشق اور تدریب کیوں نہیں کرتے؟!۔
يقينا نفس جب جب آرام اور نیند نیند کا عادی ہو جائے تو اس پر بغیر
تمرین اور تیاری کے قیام اور محنت کا کام مشکل ہو جاتا ہے ہے!۔
ابوبکر بلخی رحمہ اللہ کہتے ہیں: رجب کھیتی کا مہینہ ہے ہے شعبان
کھیتی کی سينچائی کا مہینہ ہے ہے اور رمضان ان فصل کے کے کٹائی کا مہینہ ہے اور
کسی نے کہاہے كہ: رجب کی مثال ہوا کی طرح ہے اور رمضان کی مثال بارش کی سی ہے۔
لہذا جو رجب میں میں کھیتی نہ کریں شعبان میں سينچائى نہ كرے تو وه
رمضان میں کیسے فصل کاٹ سکتا ہے اور کیسے اس میں یہ لالچ آ سکتی ہے کہ وہ رمضان
میں عبادت اور فرمانبرداری کی کی مٹھاس پاسکے جبکہ اس نے رمضان سے پہلے کچھ کیا ہی
نہیں؟!
لہذا ہم وقت رہتے ہی جلدی کرلیں،یحییٰ بن معاذ رحمہ اللہ کہتے ہیں
کہ میں اپنے آ پ پر موت کے سبب نہیں روتا بلكه میں اپنے حاجت کے فوت ہونے پر روتا
ہوں۔
17-سلف ماہ شعبان میں قرآن کی تلاوت کے لئے اپنے آپ کو فارغ کر لیا
کرتے تھے اور كهتے كه شعبان قرآں کا مہینہ ہے
18-ماہ شعبان فقیروں اور مسکینوں کی مدد د اور ان پر صدقہ کرنے
کرنے کا ایک اہم موقع ہے ہے تاکہ وہ وہ اس کے ذریعے سے رمضان کے روزے اور اور قیام
ہم پر قوت حاصل کر سکیں
19-اىك عام سی غلطی یہ بهى ہے کہ بعض لوگوں کے زكاة وقت رجب اور
شعبان میں میں واجب ہو جاتے ہیں مگر وہ رمضان تک موخر کرتے ہیں ہیں اس خیال میں
میں کہ یہ افضل کام ہے اور اس کا اجر زیادہ ہوگا۔
یاد رہے كہ نصاب پر سال
گزرنے کے بعد زکوۃ میں تاخیر کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ اس طرح سے ان کے حق کو کو
مؤخر کرتے ہوئے فقیروں پر ظلم لازم آتا ہے جو کہ حدود کو پامال کرنے کے سبب اللہ
رب العالمین کی نافرمانی ہے ۔
لیکن فقیروں کے ضرورت
وقت اور ان کے مد کو مدنظر رکھتے ہوئے وقت سے پہلے زکوۃ کو جلدی نکالنا جائز ہے
20-جس پر گذشتہ رمضان کے کچھ دنوں کی قضا ہو اس پر ماہ شعبان میں
دوسرے رمضان کے داخل ہونے سے پہلے طاقت اور قدرت کی صورت میں اس کی قضا واجب
ہے،اور اس کے لیے لیے یہ رمضان کے بعد تک بلا عذر تاخیر جائز نہیں
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتى ہیں کہ مجھ پر
رمضان کے روزے ہوا کرتے تھے میں ان کی قضا شعبان سے پہلے نہیں کر پاتی تھی راوی
کہتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ضروریات کا خیال رکھتے ہوئے
حافظ ابن حجر رحمه الله کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ
کے شعبان میں روزے کے اہتمام سے یہ بات بات معلوم ہوتی ہے کہ آئندہ رمضان کی آمد
تک قضاء کا موخر کرنا جائز نہیں.
21-جس پر رمضان کے روزوں کے قضا ہو اور وہ رمضان کے داخل ہونے تک
ان کے قضا نہیں کر سکا؛
اگر وہ دونوں رمضان کے درمیان مسلسل عذر کی حالت میں ہاں تو ایسا
شخص اس دوسرے رمضان کے بعد ان کی قضا کرے گا اور قضا کے ساتھ اس پر کچھ بھی لازم
نہ آئے گا
جیسے: کوئی شخص بیمار رہا ہو اور دوسرے رمضان کی آمد تک اس کی
بیماری مسلسل چل رہی ہو تو اس پر تاخير کے سب کوئی گناہ نہ ہوگا کیونکہ وہ معذور
شمار ہوگا اور اس پر قضا کے علاوہ کچھ بھی لازم نہ آئے گا وہ چھوڑے ہوئے روزوں کی
قضا کرے گا۔
اور اگر ایسا بلا عذر ہوا ہو تو بلا عذر قضاء کو مؤخر کرنے کے لیے
یہ گنہگار ہوگا اور علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اسے قضا کرنی ہوگی مگر اس بارے
میں اختلاف ہے کہ کیا اس پر تاخیر کے سبب کفارہ ہوگا یا نہیں
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ قضا کرے گا اور ہر دن کے قضا کے ساتھ
ایک مسکین کو کھانا بهى کھلائے گا
یہ امام مالک شافعی اور
احمد کا قول ہے اور اس سلسلے میں صحابہ کرام سے کچھ آثار بھی وارد ہیں
اور کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ قضاء کرے گا لىكن اسے کھانا نہیں
کھلانا ہوگا یہ امام ابو حنیفہ کا قول ہے اور اسے امام ابن عثیمین رحمہ اللہ نے
بھی اختیار کیا ہے
22-پندرہویں شعبان کی رات خوشی منانا یا اسے قیام کے لئے خاص کرنا
اور اس کے دن کو روزے کے لئے خاص کرنا یا قبروں کی زیارت کے لئے خاص کرنا یا مردوں
کے روح که جانب سے صدقات کے لئے خاص کرنا یا کوئی اور مخصوص عبادت انجام دینا یہ
سب بدعتی اعمال ہیں
پندرہویں شعبان کی رات سے متعلق کوئی قابل اعتماد صحیح حدیث نہیں
ہے بلکہ جو بھی حدیث اس بارے میں وارد ہیں یا تو ضعیف ہیں یا موضوع ہیں ان مىں
سےبعض كو بعض اہل علم نے صحیح بهى قرار دیا ہے .
اور اس رات نماز کے سلسلے میں وارد احادیث حدیث یا تو ضعیف ہیں یا
موضوع جو نبى علیہ وسلم پر جھوٹ گرهے گئے هىن ان میں سے کوئی بھی چیز نبی کریم
کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں نہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے .
23-رات کا قیام کرنا جن کی عادت ہو اگر وہ پندرھویں شعبان کی رات
کو بھی بغیر خصوصی فضیلت کا اعتقاد رکھے اور بلا اضافی اعمال کے دیگر راتوں کی طرح
قیام کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے
24-پندرہویں شعبان کے دن کو مخصوص روزہ رکھنا مشروع نہیں الا یہ کہ
وہ دن اس کے روزے کی عادت کا دن ہو جیسے پیر یا جمعرات کا دن بغیر اس کی کسی خاص
فضیلت کا اعتقاد رکھے
اور اس کے روزے کى
ترغیب کے سلسلے میں وارد حديث بهى ثابت نہیں
25-پندرہویں شعبان کا دن بھی ایام بیض کے دنوں میں سے ہے جن کا
روزہ ہر مہینے رکھنا مستحب ہے لہذا جو 13 اور 14 کے ساتھ اس کا روزہ رکھ لے تو وہ
وہ سنت پر عمل کرنے والا ہوگا
رہی بات بات تنہا 15 کا
روزہ رکھنا تو اس کے لئے یہ نہیں کہا جائے کہ اس نے ایام بیض کا روزہ رکھا بلکہ
خاص دن کا روزہ رکھنا اس کے علاوہ اس دن کی فضیلت کے لیے ہی ہوگا جو کی ممنوع ہے
26-آدھے شعبان کے بعد روزہ نہ رکھو والی حدیث کو جمہور علماء نے
ضعیف قرار دیا ہے اور بڑے ائمہ نے کہا ہے کہ یہ حدیث منکر ہے انہی میں سے
عبدالرحمٰن ابن مہدی امام احمد اور ابو ابو زرعہ رازی وغیرہ بھی ہیں،
اس طرح طرح نصف شعبان
کے بعد روزہ رکھنا مکروہ نہ ہوگا سوائے رمضان سے ایک یا دو دن پہلے کہ اس وقت روزہ
رکھنا حرام ہوگا۔
27-حدیث کی صحت اور اور آدھے شعبان کے بعد روزے کی ممانعت امام
شافعی کا مذہب ہے اس نہي سے بھی وہ شخص مستثنى ہوگا جس کى روزے کی عادت ہو جیسے وہ
شخص جو پیر اور جمعرات کے روزہ رکھا کرتا ہو تو وہ ان کی روزہ رکھے گا اگر چہ
شعبان کے بعد ہی کیوں نہ ہو اور جو شخص نصف شعبان سے پہلے روزہ شروع کر چکا ہو اور
نصف شعبان کے بعد تک وہ روزہ رکھتا ر ہے تو اسے بھی یہ ممانعت شامل نہ ہو گی
کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کا مکمل روزہ رکھا کرتے تھے يعنى شعبان
میں کچھ دنوں کے علاوہ پورا روزہ رکھتے تھے۔
اس سے وہ شخص بھی مسلمان ہوگا جو نصف شعبان کے بعد رمضان کے قضا کے
روزے رکھتا ہو
28-رمضان سے ایک یا دو دن پہلے نفلی طور پر روزہ رکھنا نا حرام ہے
سوائے اس کے روزہ رکھنا جسکی عادت رہی ہو یا نذرکی قضا ہو یا گزشتہ رمضان کى قضا
ہو یا جو شخص نصف شعبان سے پہلے روزہ رکھنا شروع کر چکا ہو۔
جیسا کہ حدیث میں ہے ہے
کہ تم رمضان سے ایک یا دو دن پہلے روزہ نہ رکھو سوائے اس کے کے جو شخص روزہ رکھتا
رہا ہو تو وہ رکھے۔
29-شعبان کے آخر میں روزہ رکھنے والوں کی تین حالتیں ہیں؛
پہلی حالت: رمضان کے روزوں کی نیت سے احتیاط کرتے ہوئے روزہ رکھنا
یہ ممنوع ہے
دوسرى حالت: نذر کی نیت سے روزہ رکھنا یا رمضان کے قضا یا کفارہ کے
طور پر روزہ رکھنا کہ اس طرح دیگر روزے جمہور نے جائز قرار دیا ہے
تیسرى حالت: مطلق نفل
کی نیت سے روزے رکھنا یہ صورت مکروہ ہے سوائے اس کے کی اس کے روزے کی کی عادت ہو
یا اس نے آخری دو دنوں سے پہلے شعبان کے روزے رکھا ہو اور رمضان تك ركهتا رہے۔
30-رمضان سے ایک یا دو دن پہلے روزہ رکھنے سے ممانعت کی حکمت:
تاکہ کہ رمضان میں اس
چیز کا اضافہ نہ ہو جو اس میں سے نہیں ہے اہل کتاب کے نقش قدم سے بچتے ہوئے جیسا
کہ انہوں نے اپنے صیام میں میں کیا تھا کہ انہوں نے اپنى آراء اور خواہشات کے بنا
پر اس میں اضافہ کر دیا تھا
اسی طرح فرض اور نفل روزوں میں فرق کرتے ہوئے،اس لیے کہ فرائض اور
نوافل میں فرق جائز اور مشروع امر ہے اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےہر
نماز کو کسی اور نماز سے ملانے سے منع کیا ہے یہاں تک کہ اس کے درمیان ان بات یا
یا انتقال نہ ہو۔
31-شک کا دن دن تیس شعبان کا دن ہے جب جب لوگوں پر بدلی چھا جائے
اور چاند نہ نظر آئے
اسے شک کا نام اس لیے دیا گیا کیونکہ اس میں شک ہوتا ہے کہ کیا یہ
شعبان کا آخری دن ہے یا رمضان کا پہلا دن؟
اس کا روزہ حرام ہے سوائے اس شخص کے لئے جس کی روزہ رکھنے کی عادت
ہو جیسے سے پیر اور جمعرات کا دن پڑنا ان لوگوں کے لئے جو ان دنوں میں روزہ رکھا
کرتے ہو ہو جیسا کہ حضرت عمار رضى الله عنه كى حدیث میں ہے کہ :"جس نے شک
والے دن روزہ رکھا اس نے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی".
32-ماہ شعبان میں كئى عظیم واقعات اور حوادث رونما ہوئے انہی میں
سے؛
*رمضان سنہ 2 ہجری میں روزے کی فرضیت
*بیت المقدس سے مسجد حرام کے جانب سن دو ہجری میں میں قبلہ کا
تحویل (یہ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ رجب میں ہوا تھا اور یہ کہا تھا کہ جمادی
الاخریٰ میں ہوا تھا)۔
*حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا سے نہیں پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح
سنہ 3ہجری میں ہوا
*غزوہ بنو مصطلق سن 5
ہجری میں.
*غزوہ تبوک سن 9ہجری میں ہوئی جو رجب کے مہینے میں تھی اور آپ صلی
اللہ علیہ وسلم رمضان کے مہینے میں مدینہ واپس آئے تھے اور یہ بھی کہا گیا کہ
شعبان کے مہینے میں اس کے علاوہ اور بھی اقوال ہیں
مضى
رجب وما احسنت فيه
وهذا
شهر شعبان المبارك
فيا من
ضيع الاوقات جهلا
بحرمتها
افيق واحذر بوارك
فسوف
تفارق اللذات قسرا
ويخلي
الموت كرها منك دارك
تدارك
ما استطعت من الخطايا
بتوبة
مخلص واجعل مدارك
على
طلب السلامه من جحيم
فخير
ذوي الجرائم من تدارك
اللہ تعالی سے ہم دعا گو ہیں کہ اللہ رب العالمین ہمیں ان اعمال کی
توفیق دے دل سے وہ خوش ہوتا ہے جو ہے وہ پسند کرتا ہے اور ہمیں میں صحت اور عافیت
اور ایمان کی حالت میں رمضان تک پہنچائے آئے تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے
ہیں
تعليقات
إرسال تعليق